(کسی چیز سے نہیں ڈرا)
سرکش بیل رام ہونے کو تیار نہ تھا ، مسلسل اپنے سر سے میرے چھوٹے چھوٹے پیروں پر مارتا رہا تھا ، میں یک و تنہا اس خطرناک بیل پر سوار بیابان سے گزر کر اپنی پھوپھی کے گھر پہنچا ۔
ایک رات میرے والد مجھے اپنے ساتھ کھلیان لے گئے کہ جو نہر کے کنارے اور ہمارے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا ، رات میں سیال نے کھلیان پر حملہ کردیا ، ہم اور والد دونوں انجیر کے درخت پر چڑہ گئے ، سیال کا ایک جھنڈ کھلیان پر حملہ ور تھا ، میرے والد نے جس قدر بھی چیخ چلاہٹ کی ان وحشی جانوروں پر کوئی اثر نہ ہوا ، انہوں نے رات کی تاریکی میں کھلیان کا کافی حصہ خراب کردیا مگر ہم اور والد فقط تماشائی رہے ۔
ہمیشہ برے حالات نہیں تھے ، سردی کے پورے موسم حتی بہار کے دوسرے مہینہ تک ہم سبھی کی انکھیں گیہوں کے ذخیرہ کی جانب تھی جو یکے بعد دیگرے ختم ہوتے جا رہے تھے ، میری والدہ کا اس بات پر پورا دھیان تھا کہ مشکل سے ربرو نہ ہوں ، بعض اوقات برکت کے طور پر گیہوں میں ہری مٹر ملا دیتی ، ہفتے کے بیچ میں ایک دوبار اَرزَن کی روٹیاں پکا کر ہمیں کھلاتیں کہ جو فقراء کا کھانا تھا ۔
تمام کمی اور ناداریوں کے باوجود کوئی بھی دن ایسا نہ تھا جس دن ہمارے گھر مہمان نہ ہوں ، سال میں ایک دوبار چاول بھی کھاتے تھے کہ جسے قبولی کہتے ہیں ، کسی کے یہاں بھی فقط آش نہیں پکتی تھی مگر قبیلہ خواتین جو کہ سبھی آپس میں رشتہ دار تھیں ، چچا زاد ، مامو زاد ، پھوپھی زاد اور خالہ زاد تھیں اکٹھا ہوکر کوچ کرنے کی ابتداء میں بارش ہونے کے لئے ـ سید خوشنام ، پیر خوشنام ـ کی نذر کے طور پر آش پکاتیں ، جو بہت لذیذ ہوتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
فارسی کتاب «از چیزی نمی ترسیدم» سے اقتباس
Add new comment