(کسی چیز سے نہیں ڈرا)
جھانگیر بیان کرتے ہیں کہ تمھارے والد شادی کے دن اونٹ پر سوار تھے اور اونٹ کنٹرول سے باہر ہوگیا اور بھاگ گیا ، دولہا اونٹ پر سوار ! کچھ دیر کے بعد جس اونٹ پر دولہا سوار تھا واپس لوٹا گیا ۔
میرے والدین اپنی ازدواجی حیات کی ابتداء میں بہت زیادہ تنگدستی سے روبرو تھے مگر اہستہ اہستہ کافی مویشیوں کے مالک ہوگئے کہ بعض اوقات ایک یا دو چرواہے ساتھ رہتے تھے ، دونوں کی ازدواجی زندگی کا پہلا پھل بیٹی کی شکل میں دنیا میں ایا ، سکینہ کے نام سے مگر تین سال کی عمر میں کالی کھانسی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ، مختصر مدت کے بعد میری بہن ہاجرہ اور میرے بھائی حسین پیدا ہوئے اور پھر سن 1958 میں میری پیدائش ہوئی ۔
بہت زیادہ ٹھنڈ پڑنے والی سردی کے موسم میں چچک کا شکار ہوگیا ، میرے ماں باپ کو ٹھیک ہونے کی امید نہ تھی ، ہر طرح کی دیسی دواوں سے استفادہ کیا مگر افاقہ نہ ہوا ، میرے والد کے بیان کے مطابق گھٹنوں تک گری ہوئی برف میں مجھے ماں کی پشت پر باندھ کر ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے رابُر لے گئے ، بہر حال مشیت الھی یہ تھی کہ میں زندہ رہوں لہذا صحتمند ہوگیا ۔
ماں سے میری خاص عقیدت اور شاید ھم ان کی مجھ سے محبت کا نتیجہ تھا کہ میں دو سال کے بجائے تین سال تک ان کا دود پیئوں ، ماں کی چھاتی سے جدائی کے دن نہایت سخت ایام تھے مگر اہستہ اہستہ عادت ہوگئی اور اب ماں کی گود سے ان کی پشت پر سوار ہوگیا ، میری ماں کبھی کبھی مجھے صبح سے ظھر تک اپنی پشت پر کپڑے سے باندھے رکھتیں ، وہ تمام وقت کام کرتی رہتیں ، یا فصل کاٹتی یا ٹوکریاں اکٹھا کرتیں یا گھر کو جھاڑو لگاتیں یا مویشیوں کو چارہ ڈالتیں یا ان کا دودھ دوہتیں یا روٹیاں پکاتیں ، ان کی پیٹھ پر مجھے کیا سکون تھا مجھے نیند اجاتی ، میری نظر میں میری ماں کو بھی میری گرمی کا احساس تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
فارسی کتاب «از چیزی نمی ترسیدم» سے اقتباس
Add new comment