رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سیرت میں سے ایک اپ کا جوانوں پر توجہ کرنا اور انہیں سمجھنا ہے ، انحضرت (ص) نے انہیں بنیادوں پر معاشرہ کے ذمہ دار افراد اور خاندان کے بزرگوں کو جوانوں کی جلد از جلد شادی کرانے اور اس مستحب کام میں آسانی پیدا کرنے کی تاکید فرمائی ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : « إِنْ خَطَبَ إِلَيْكَ رَجُلٌ رَضِيتَ دِينَهُ وَ خُلُقَهُ فَزَوِّجْهُ وَ لَا يَمْنَعْكَ فَقْرُه ؛ جب کوئی مرد کوئی رشتہ لے کر اور تم اس کے دین اور اخلاقیات سے راضی ہو تو اس رشتہ پر راضی ہوجاو اور ہرگز کسی کا فقر و تندگدستی تمہیں اس رضایت سے نہ روکے ۔ » (1)
آنحضرت جوانوں کے احساسات اور خواہشات سے بخوبی اگاہ اور واقف تھے اور جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بڑی بڑی سماجی ذمہ داریاں ان کے حوالے کرتے تھے کہ جو انہیں دین اسلام کی جانب راغب ہونے اور خدا کے راستہ میں شھادت کے درجہ ہر فائز ہونے کا سبب بنا ۔
مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے مدینے ہجرت کرنے سے پہلے مصعب بن عمیر کو جو ایک نوجوان تھے ثقافتی اور تبلیغی مسائل انجام دینے کی غرض سے مدینہ روانہ فرمایا ، مصعب بن عمیر جنگ بدر اور احد میں سپاہ حق کے کمانڈر اور پرچمدار تھے اور انہیں اس راہ حق میں جنگ احد میں شھادت نصیب ہوئی ۔ (2)
حبیب کبریا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح مکہ سے پہلے عتاب بن اسید کو جو ۲۱ سالہ جوان تھے مکہ کے گورنر کے عنوان سے منتخب کیا جبکہ اپ کے اصحاب میں بزرگ افراد بھی موجود تھے اور جب آنحضرت (ص) کے اس عمل اور انتخاب پر کسی نے اعتراض کیا تو حضرت (ص) نے پورے اطمینان کے ساتھ جواب دیا : عمر کا زیادہ ہونا اور سن رسیدہ ہونا معیار نہیں ہے بلکہ میعار لیاقت اور فضیلت ہے ، لیاقت و فضیلت کا تعلق سن اور عمر سے نہیں ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ سن اور عمر بزرگی کا سبب نہیں ہوتا بلکہ فضلیت اور لیاقت انسان کی بزرگی اور عظمت کا سبب ہے ۔ (3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج 14، ص 188، ح 16468 ۔
2: «قد قلّد محمد رسول اللَّه، عتّاب بن اسيد احكامكم و مصالحكم، و قد فوّض اليه تنبيه غافلكم، و تعليم جاهلكم، و تقويم أود مضطربكم، و تأديب من زال عن ادب اللَّه منكم، لما علم من فضله عليكم .. فهو لنا خادم، و في اللَّه أخ، و لأوليائنا موال، و لأعدائنا معاد؛ و هو لكم سماء ظليلة، و ارض زكيّة، و شمس مضيئة .. و لا يحتجّ محتجّ منكم في مخالفته بصغر سنّه؛ فليس الاكبر هو الأفضل، بل الافضل هو الاكبر» حکیمی، اخوان، آرام، احمد، الحياة، ج 2، ص 687 ۔
3: «فِي يَوْمِ أُحُدٍ وَ كَانَ اللِّوَاءُ يَوْمَئِذٍ فِي بَنِي عَبْدِ الدَّارِ فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ص مُصْعَبَ بْنَ عُمَيْرٍ فَاسْتُشْهِدَ وَ وَقَعَ اللِّوَاءُ مِنْ يَدِهِ...» شیخ مفید، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج1، ص 80 ۔
Add new comment