رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک اور اخلاقی سیرت لوگوں کو اچھے نام سے بلانا اور یاد کرنا ہے ، انحضرت (ص) ہمیشہ اپنے اصحاب اور انصار کو کنیت کے وسیلہ بلاتے تھے اور جن کی کوئی کنیت نہ تھی ان کے لئے مناسب اور اچھی کنیت کا انتخاب کرتے تھے ، نتیجہ میں لوگ بھی اسی کنیت کے ساتھ آواز دیتے اور انہیں بلاتے ، اپ (ص) صاحب اولاد ، بے اولاد اور حتی بچوں کے لئے کنیت کا انتخاب فرماتے ۔ (۱)
احترام کے دیگر گوشہ اور پہلو میں سے اٹھنے بیٹھے کا طریقہ ہے مثال کے طور پر کسی کے سامنے پیروں کا پیھلانا شخص کی بے احترامی شمار کی جاتی ہے لہذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بزم میں ہرگز اپنے پیروں کو نہیں پھیلاتے تھے ، امام علی علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا : « مَا رُئِيَ مُقَدِّماً رِجْلَهُ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ قَطُّ ؛ ہرگز نہیں دیکھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کسی کے سامنے اپنے پیروں کا دراز کیا ہو پھیلایا ہو » ۔ (۲)
۲: جوانوں کو سمجھنا اور ان کی توانائیوں سے استفادہ
جوان انسانی معاشرہ ، ہر سرزمین اور ہر ملک کا عظیم سرمایہ ہیں کہ اگر انہیں موقع دیا جائے ، انہیں سمجھا جائے اور ان کی استعداد و توانائیوں کو کشف کیا جائے تو ملک کی بہت ساری الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا سکتے ہیں ، چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : « عَلَيكَ بِالأَحداثِ فَإِنَّهُم أسرَعُ إلى كُلِّ خَيرٍ ؛ جوانوں کو سمجھو کیوں کہ وہ بہت جلد عمل خیر کی جانب مائل ہوتے ہیں » ۔ (۳)
قران کریم نے بھی اصحاب کہف کی داستان نقل فرماتے ہوئے کہا : نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنوا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْناهُمْ هُدىً ؛ ہم آپ کو ان کا حال صحیح صحیح سناتے ہیں، بیشک وہ (چند) نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے لئے (نورِ) ہدایت میں اور اضافہ فرمادیا ۔ (۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: طباطبائی، علامه، فقیهی، محمد هادی، سنن النبى، ج ۱، ص ۵۳ ۔
۲: طبرسی، حسن، مكارم الأخلاق، ص ۲۴۔
۳: مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۳، ص ۲۳۶ ۔
۴: قران کریم ، سورہ كهف، آيت ۱۳۔
Add new comment