(گذشتہ سے پیوستہ)
ھندوستان میں ھندو مذھب کے ماننے والے معتقد تھے کہ عورت مرد (شوھر) کے بدن کا ایک حصہ ہے لہذا شوھر کی موت کے ساتھ عورت کو بھی مار دیا جاتا تھا اور شوھر کی لاش کے ساتھ عورت کے جسم کو بھی جلا دیا جاتا تھا یا دفنا دیا جاتا ہے اور اگر کسی جگہ یا مقام پر زندہ چھوڑ بھی دی گئی تو نہایت ہی حقارت و توھین امیز نگاہوں سے اسے دیکھا جاتا تھا ، گذشتہ امت جیسے ھندو یا چین میں عورت نہ انسان تھی اور نہ ہی حیوان بلکہ ان دونوں کے بیچ کی حالت سے روبرو تھی ۔
قوم کلدانیان و آشوریان میں بھی عورت اپنے شوھر کی پیرو تھی اور اسے استقلال حاصل نہ تھا ، حمورابى قوانین اور ائین کے تحت عورت نہ مستقل سوچ سکتی تھی اور نہ ہی مستقل عمل کرسکتی تھی ، قدیم روم میں بھی تمام اھل خانہ ، گھر کی ذمہ دار فرد کی عبادت کرتے تھے اور عورتیں معاشرہ کا حصہ شمار نہیں کی جاتی تھیں نتیجہ میں ان کی شکایتوں اور باتوں کو بھی کوئی نہیں سنتا تھا ، ان سے کیا ہوا معاملہ حتمی نہیں ہوتا تھا ، سماجی اور اجتماعی امور میں بھی ان کی مداخلت ھرگز صحیح شمار نہیں کی جاتی تھی ۔ (۱)
یونان قدیم میں عورت کو پلید اور شیطان کا تربیت یافتہ شمار کرتے تھے اور رومی حتی بعض یونانی معاشرہ کے افراد معتقد تھے کہ عورت نفس مجرد انسانی کی حامل نہیں ہے جبکہ مرد اس نعمت سے سرافراز ہے ۔
سن ۵۸۶ عیسوی میں فرانس میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں عورت کے انسان ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی گئی ، اور ایک طولانی بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ عورت بھی انسان ہے البتہ مرد کی طرح مستقل انسان نہیں ہے بلکہ مردوں کی خدمت کرنے سے مخصوص ہے ، انگلینڈ میں بھی ۱۰۰سال پہلے تک عورت کو انسانی مجموعہ کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا تھا اور عربوں کا برتاو بھی عورت کے ساتھ کچھ بہتر نہ تھا بلکہ ان دونوں کا نچوڑ تھا ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: علامہ طباطبائی ، محمد حسین ، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۲، ص۳۹۴ ـ ۳۹۶ ۔
۲: علامہ طباطبائی ، محمد حسین ، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۴، ص۱۴۰ ۔
Add new comment