ایک مبلغ اور دین کا پیغام پہنچانے والا اس بات کو بخوبی سمجھے کہ جب بھی ہدایت کی ضرورت مند عوام کے لئے امید کا دیا جلائے گا تو بدخواہوں کے حملے سے روبرو ہوگا اور اس راہ میں دشمنوں سے مدارا بے سود و بے فائدہ ہے بلکہ ان افراد سے سختی اور سنجیدگی سے گفتگو کیا جائے ، ان سے نفرت کا اظھار کیا جائے اور ہرگز ان پر توجہ نہ کی جائے ولو ایسے لوگ صاحب ثروت و دولت اور قدرت ہوں ۔
خداوند متعال نے اپنے حبیب مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کو خطاب کرکے فرمایا: « فإن عصوک فقل إنی بریء مما تعملون ؛ اگر اپ کی مخالفت کی گئی تو اپ کہدیجئے کہ تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو میں اس سے متنفر ہوں » (۱) لہذا دشمن کے مقابل حملے اور ہجوم کی سیاست اپنائی جانا چاہئے وگرنہ وہ حملہ کرے گا ۔
البتہ ہر مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ خداوند متعال کی وحدانیت اور اس کی غیبی طاقت و قدرت پر اعتقاد رکھے جیسا کہ خداوند متعال نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو جس کے سلسلہ میں اس بات سے بخوبی اگاہ ہے کہ وہ اس کی ذات کے سوا کسی پر تکیہ اور بھروسہ نہ کریں گے ، خطاب کرکے کہا : « فَلا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلهاً آخَرَ فَتَکُونَ مِنَ الْمُعَذَّبينَ ؛ ( ای پیغمبر! ) خدا کے سوا کسی اور کو معبود قرار نہ دو کہ معذبین میں سے ہوں گے ۔ (۲)
لہذا جس کا مقصد خدا کے دین کی تبلیغ ہو اسے اس راہ میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے اور حتی عوام سے شکریہ کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے نیز اپنی محنت و زحمت کا اجر خداوند سبحان سے مانگے ، جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے « لا نرید منکم جزاءا و لا شکورا ؛ میں تم سے کسی قسم کی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا ہوں » (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ شعرا ، ایت 216 ۔
۲: قران کریم ، سورہ شعرا ، ایت 213 ۔
۳: قران کریم ، سورہ انسان ، ایت 9 ۔
Add new comment