ہندہ جگر خوار کے بچے سے خیر کی امید نہیں

Thu, 09/15/2022 - 07:33

حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے دربار یزید ملعون میں اس طرح اپنے خطبے کا اغاز کیا ؛

أَلْحَمْدُللهِ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ أجْمَعين ۔۔۔۔ أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاْرْضِ ۔۔۔

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ، خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت علیهم السلام پر۔

اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کردیئے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں اور تجھے شان و مقام حاصل ہوگیا ہے؟

اس کے بعد فرمایا :

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ ۔

اے طلقاء کے بیٹے یعنی آزاد کردہ غلاموں کی اولاد ، کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بیٹها رکھا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ، تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ، تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ، تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ، ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔

عتوا منک علی اللہ و جحودا لرسول اللہ و دفعا لما جاء به من عند اللہ و لا غرو منک و لا عجب من فعلک و انی يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الشھداء، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ السعداء ۔۔۔۔

اس قدر خدا کی سرکشی مناسب نہیں ہے ، تو نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا انکار کیا ہے اور ان کے اس دین کو تباہ کرنا چاہتا ہے جسے وہ خدا کی جانب سے لیکر ائے ہیں ، البتہ تیرے برے اعمال پر تعجب نہیں ، کیسے اس کے بچے سے خیر امید کی جاسکتی ہے جس نے شھیدوں کا جگر اپنے دانتوں سے چبایا ہو اور اس کے بدن کا گوشت ان نیک افراد کے خون سے رشد پایا ہو ، جس نے انبیاء کے سید و سردار سے جنگ کی اگ شعلہ رو کی ہو اور اسی مقصد سے مختلف قبائل کو اکٹھا کیا ہو اور رسول خدا کے روبرو شمشیر کھینچی ہو ، جو قوم عرب میں سب سے زیادہ خدا اور اس کے رسول کا منکر ہو اور رسول خدا کی بہ نسبت دل میں کینہ رکھتا ہو ، خدا کے سامنے تجھ سا سرکش اور کافر نہیں دیکھا ۔

اے یزید ! آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اور برے اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنا رہا ہے ، خدا کی قسم وه تیری آواز نہیں سن سکتے ! اور عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ اے کاش میرے ہاتھ شل ہوجاتے یا کٹ کر گرجاتے یا آرزو کرتا کہ تیری ماں تجھے پیٹ میں نہ لاتی اور تجھے پیدا ہی نہ کرتی کیوں کہ اس دن خدا کا غضب تیرا مقدر اور رسول خدا کی ناراضگی تیری قسمت ہے ۔

پھر حضرت زینب نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا  !

« أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا ۔۔۔۔۔

اے میرے  پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا ، تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ، تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جنہوں نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا ، ہم سے کئے ہوئے عھد و پیمان کو توڑ ڈالا ، ہمارے حامیوں اور محافظوں کو شھید کرڈالا اور ہماری حرمت شکنی اور ابرو ریزی کی ۔

اس کے بعد فرمایا :

إِنِّي لاَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ، وَ أَسْتَعْظِامُی تَقْرِيعَكَ، وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ ۔۔۔۔

اے یزید ہم تیری حیثیت اور منزلت کو بہت ہی خوار و حقیر اور اپنے حق میں تیری جانب سے ہونے والی تحقیر اور مصیبتوں کو بہت بڑا شمار کرتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قزوینی، علامہ سید محمد کاظم ، حضرت زینب کبری ولادت سے شھادت تک ، ص ۲۷۲ اور نظری منفرد ، علی ، قصّہ کربلا، ص ۴۹۵ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 95