سرکش اور باغی یزید ملعون کی دربارہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے معرکہ اراء خطبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں اور سید ابن طاووس نے کتاب المھوف میں تذکرہ کیا ہے ، چونکہ ان دونوں نقلوں میں ایک بنیادی فرق موجود ہے لہذا ہم اس مقام پر پہلے شیخ طبرسی علیہ الرحمۃ سے منقول خطبہ کا ذکر کریں گے ، اس کی مختصر شرح پیش کریں گے اور اخر میں سید ابن طاووس علیہ الرحمۃ سے منقول خطبہ کا تذکرہ کریں گے ۔
شیخ طبرسی علیہ الرحمۃ کتاب الاحتجاج میں تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت علی ابن طالب علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی نے یہ مشاھدہ کیا کہ یزید ملعون اپنی چھڑی، امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر مار رہا ہے تو اپ نے شدید اعتراض کیا ۔
بنی ھاشم کی مقدس اور بزرگ ہستیوں اور دیگر افراد نے نقل کیا ہے کہ جب علی ابن الحسین سید سجاد علیہ السلام اور ان کے ہمراہ اسیروں کا قافلہ یزید کے پاس پہنچا تو امام حسین مظلوم علیہ السلام کے سرمبارک کو لاکر یزید ملعون کے سامنے ایک طشت میں رکھا گیا ، یزید اس حال میں کہ اپنی چھڑی ، حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر مار رہا تھا ان اشعار کو پڑھ رہا تھا :
لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ
خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ
لَیْتَ أَشْیاخِی بِبَدْر شَهِدُوا
جَزَعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَسَلْ
لاَهَلُّوا وَاسْتَهَلُّوا فَرَحاً
وَ لَقالُوا یا یَزِیدُ لاَ تَشَلْ
فَجَزَیْناهُ بِبَدْر مَثَلا
وَ أَقَمْنا مِثْلَ بَدْر فَاعْتَدَلْ
لَسْتُ مِنْ خِنْدِف إِنْ لَمْ أَنْتَقِمْ
مِنْ بَنِی أَحْمَدَ ما کانَ فَعَلْ
بنی ہاشم نے تخت و تاج کے لئے ڈھونگ مچایا ؛ وگرنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی اور نہ وحی نازل ہوئی ۔
اے کاش بدر کے میرے اجداد ہوتے تو دیکھتے ؛ قبیلہ بنی خزرج کے ٹکراو پر ان کے رونے اور گڑگڑانے کو ( کہ ہم نے کس طرح ان سے انتقام لیا)
وہ اس وقت ہوتے تو خوشی اور مسرت کا اظھار کرتے ؛ اور جھوم کر کہتے اے یزید کیا تو نے اچھا کام کیا
میں نے اس کام سے جنگ بدر کا انتقام لیا ؛ اور اج سارا حساب و کتاب برابر ہوگیا ( یعنی جنگ بدر کی ہار کا بدلہ لے لیا)
میں نسل خندق میں سے نہیں ہوں ، اگر انتقام نہ لوں احمد کے بچوں سے اور اگر ایسا نہ کروں
جس وقت حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اس منظر کو دیکھا تو درد سے تڑپ اٹھیں اور فریاد کی " یا حسیناہ ، یا رسول اللہ ، یابن مکہ و صفا ، یابن فاطمہ زھراء سیدۃ النساء العالمین ، یابن احمد المصطفی ۔
روای بیان کرتا ہے کی دربار یزید میں بیٹھے تمام لوگ دہاڑ مار کر رونے لگے پھر حضرت زینب اٹھیں اور مجمع پر ایک نگاہ دوڑائی اور اس فصیح و بلیغ خطبہ کو ارشاد فرمایا ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قزوینی، علامہ سید محمد کاظم ، حضرت زینب کبری ولادت سے شھادت تک ، ص ۲۷۰ اور نظری منفرد ، علی ، قصّہ کربلا، ص ۴۹۵ ۔
Add new comment