حکم بن عتیبہ کا بیان ہے کہ ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس تھا اور اپ کے گھر میں کافی لوگ موجود تھے کہ ناگہاں ایک بوڑھا عصا کے سہارے چلتا ہوا ایا اور کہا : سلامٌ علیک یابن رسول الله و رحمة الله و برکاته اور خاموشی سے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا ، امام علیه السلام نے اس کا جواب دیا : و علیک السلام و رحمة الله و برکاته اور پھر اس بوڑھے نے مجمع کی جانب رخ کر کے سب کو سلام کیا السلام علیکم لوگوں نے بھی اس کا جواب دیا اور پھراس نے امام محمد باقر علیہ السلام کی جانب رخ کرکے کہا کہ یابن رسول الله ہم اپ پر قربان جائیں ، اجازت دیجئے ہم اپ کے قریب ائیں ، خدا کی قسم میں اپ سے محبت کرتا ہوں اور اپ کے شیعوں سے بھی محبت کرتا ہوں ، خدا کی قسم میری اپ سے اور اپ کے چاہنے والوں سے یہ محبت لالچ اور طمع کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ میں اپ کے دشمنوں کو دشمن سمجھتا ہوں اور ان سے برائت کا اظھار کرتا ہوں ، خدا کی قسم ان سے میری یہ دشمنی اور برائت اس وجہ سے نہیں ہے کہ انہوں نے مجھ پر کوئی ظلم کیا ہو ، خدا کی قسم میں اپ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور اپ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانتا ہوں اور اپ کے حکم کا منتظر ہوں ، ہم اپ پر قربان جائیں مجھسے کیا توقع رکھتے ہیں ؟
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا میرے اور قریب آو ! اور امام علیہ السلام نے اپنے قریب بلا کر بٹھایا پھر فرمایا : ایک مرد میرے والد علی بن حسین علیهما السلام کے پاس ایا اور اس نے بھی تمھارے مانند سوال کیا ؟ تو میرے بابا نے اس سے فرمایا : اگر دنیا سے اٹھ گئے تو رسول خدا و علی و حسن و حسین و علی بن حسین علیهم السلام کی خدمت میں پہنچو گے ، تمھارے دل کو ارام ملے گا اور تمھارے سینے کو ٹھنڈک پہنچے گی نیز تمھاری انکھیں روشن ہونگی ، روح اور ریحان کے ساتھ کرام الکاتبین تمھارا استقبال کریں گے اس حال میں کہ جان حلق تک پہنچ چکی ہے اور اگر زندہ رہ گئے تو وہ دیکھو گے جس پر سے خداوند متعال نے تمھارے لئے پردہ اٹھایا ہے ، اور میں تمھارے ساتھ بہشت کے بالاترین مقام پر ہوں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَةَ قَالَ: بَیْنَا أَنَا مَعَ أَبِی جَعْفَرٍ علیه السلام وَ الْبَیْتُ ...غَاصٌّ بِأَهْلِهِ إِذْ أَقْبَلَ شَیْخٌ یَتَوَکَّأُ عَلَى عَنَزَةٍ لَهُ حَتَّى وَقَفَ عَلَى بَابِ الْبَیْتِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ ثُمَّ سَکَتَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ ثُمَّ أَقْبَلَ الشَّیْخُ بِوَجْهِهِ عَلَى أَهْلِ الْبَیْتِ وَ قَالَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ ثُمَّ سَکَتَ حَتَّى أَجَابَهُ الْقَوْمُ جَمِیعاً وَ رَدُّوا عَلَیْهِ السَّلَامَ ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ عَلَى أَبِی جَعْفَرٍ ع ثُمَّ قَالَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَدْنِنِی مِنْکَ جَعَلَنِیَ اللَّهُ فِدَاکَ فَوَ اللَّهِ إِنِّی لَأُحِبُّکُمْ وَ أُحِبُّ مَنْ یُحِبُّکُمْ وَ وَ اللَّهِ مَا أُحِبُّکُمْ وَ أُحِبُّ مَنْ یُحِبُّکُمْ لِطَمَعٍ فِی دُنْیَا إِنِّی لَأُبْغِضُ عَدُوَّکُمْ وَ أَبْرَأُ مِنْهُ وَ وَ اللَّهِ مَا أُبْغِضُهُ وَ أَبْرَأُ مِنْهُ لِوَتْرٍ کَانَ بَیْنِی وَ بَیْنَهُ وَ اللَّهِ إِنِّی لَأُحِلُّ حَلَالَکُمْ وَ أُحَرِّمُ حَرَامَکُمْ وَ أَنْتَظِرُ أَمْرَکُمْ فَهَلْ تَرْجُو لِی جَعَلَنِیَ اللَّهُ فِدَاکَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع إِلَیَّ إِلَیَّ حَتَّى أَقْعَدَهُ إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ قَالَ أَیُّهَا الشَّیْخُ إِنَّ أَبِی عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ ع أَتَاهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مِثْلِ الَّذِی سَأَلْتَنِی عَنْهُ فَقَالَ لَهُ أَبِی ع إِنْ تَمُتْ تَرِدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ عَلَى عَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَ یَثْلَجُ قَلْبُکَ وَ یَبْرُدُ فُؤَادُکَ وَ تَقَرُّ عَیْنُکَ وَ تُسْتَقْبَلُ بِالرَّوْحِ وَ الرَّیْحَانِ مَعَ الْکِرَامِ الْکَاتِبِینَ لَوْ قَدْ بَلَغَتْ نَفْسُکَ هَاهُنَا وَ أَهْوَى بِیَدِهِ إِلَى حَلْقِهِ وَ إِنْ تَعِشْ تَرَى مَا یُقِرُّ اللَّهُ بِهِ عَیْنَکَ وَ تَکُونُ مَعَنَا فِی السَّنَامِ الْأَعْلَى فَقَالَ الشَّیْخُ کَیْفَ قُلْتَ یَا أَبَا جَعْفَرٍ فَأَعَادَ عَلَیْهِ الْکَلَامَ فَقَالَ الشَّیْخُ اللَّهُ أَکْبَرُ یَا أَبَا جَعْفَرٍ إِنْ أَنَا مِتُّ أَرِدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ عَلَى عَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ ع وَ تَقَرُّ عَیْنِی وَ یَثْلَجُ قَلْبِی وَ یَبْرُدُ فُؤَادِی وَ أُسْتَقْبَلُ بِالرَّوْحِ وَ الرَّیْحَانِ مَعَ الْکِرَامِ الْکَاتِبِینَ لَوْ قَدْ بَلَغَتْ نَفْسِی إِلَى هَاهُنَا وأَهْوَى بِیَدِهِ إِلَى حَلْقِهِ وَ إِنْ تَعِشْ تَرَى مَا یُقِرُّ اللَّهُ بِهِ عَیْنَکَ وَ تَکُونُ مَعَنَا فِی السَّنَامِ الْأَعْلَى ۔۔۔۔ کلینی ، اصول کافی ، ج ۸ ، ص ۷۶ ۔
Add new comment