پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا اور امام علی علیہ السلام کے گھر میں بچوں کی کمسنی اور ان کے بچپنے ہی میں دینی تعلیمات اور دینی تربیت کا اغاز و نفاذ فرمایا ، جس وقت حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور وہ دنیا میں تشریف لائے تو انہیں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) کی خدمت میں لے جایا گیا حضرت (ص) نے ان کے بوسے لئے ، پھر حضرت (ص) نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور اور بائیں کان میں اقامۃ کہی ، حضرت (ص) نے امام حسین علیہ السلام کا ساتھ بھی یہی عمل انجام دیا ۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بچوں کی تربیت کے باب میں فرماتے ہیں کہ بچوں کا دل کوری زمین کے مانند ہے کہ اس میں جس طرح کی بھی بیج بوئی جائے گی ، کاشت کی جائے گی ، زمین قبول کرلے گی ، لہذا اس سے پہلے کہ بچے کا دل سخت اور اس کی فکر کسی اور چیز میں مشغول ہو میں اس کے ادب اور اس کی تربیت کے لئے قدم اگے بڑھاتا ہوں ۔
در حقیقت گھرانے کی بچوں کی دینی تربیت پر توجہ ، مستقبل میں ان کے دیندار ہونے اور نوجوانی و جوانی میں ان کی دینی رغبت اور دینی فعالیتوں پر اثر انداز ہے ۔
بچوں کی دینی تربیت کے مراحل
گھرانہ تین راستہ اور طریقہ سے بچوں کی تربیت کے مراحل طے کرتا ہے ، پہلا طریقہ بچے سات سال کی عمر میں ماں اور باپ کے کردار اور ان کی عادتوں کی تقلید کرتے ہیں اور اسی راستہ پر چلتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی دینی باتوں کی تعلیم جیسے دعاوں کا سیکھنا ، نماز کے لئے قبلہ کی سمت کا پتہ لگانا ، وضو کرنا نیز دینی سوالات کے بدلے ماں اور باپ سے مناسب جواب دریافت کرنا ، دینداری کی جانب وہ پہلا قدم ہے جسے بچے اٹھاتے ہیں ۔
دوسرا مرحلہ سات سال کی عمر کے بعد کا مرحلہ ہے یہ وہ مرحلہ ہے جس میں والدین پوری سنجیدگی کے ساتھ بچوں سے دینی باتوں پر توجہ اور کسی حد تک ان پر عمل کرنے کے خواہشمند اور متوقع ہوتے ہیں تاکہ بچے دین کے راستہ پر گامزن ہوسکیں ۔
دینی تربیت کا تیسرا مرحلہ کہ جو گذشتہ دونوں مراحل سے کہیں زیادہ سنگین اور سخت ہے وہ نتیجہ کا دریافت کرنا ہے یعنی ابھی تک جس چیز کی بچے کو تعلیم دی گئی ہے اور جو کچھ بھی اس نے سیکھا ہے اس پر عمل کرے ، اسے اپنے روز مرہ کے پروگرام کا حصہ قرار دے ، اس مرحلہ میں والدین اس بات توجہ کریں کہ ہر قسم کی جلد بازی ، عجلت ، توانائی سے زیادہ مطالبہ ، سختی اور حوصلہ شکنی نیز دیگر طریقے اور راستے بچوں کے شدید عکس العمل سے روبرو ہوں گے اور ان پر غلط اثر ڈالے گا لہذا دین کی میٹھی اور دلکش یادیں بچوں ذھن میں ڈالیں ۔
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ « دَعِ القول فیما لاتعرف ؛ جس چیز کے سلسلہ میں تم نہیں جانتے اسے ترک کرو ۔ » (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سید رضی ، نہج البلاغہ ، خط ۳۱ (امام حسن علیہ السلام کو امام علی السلام کا خط) ، اخلاقی نصیحتیں ۔
Add new comment