تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
ایسے شہید کے بارے میں انسان کیا لکھے اور کیا کہے جس کی شخصیت سمندر کی طرح عمیق ہو کسی جھیل کی طرح پرسکون کسی پہاڑ کی طرح ثابت و مستقل جس کے کردار میں اپنے آقا و مولا کی طرح مجموعہ اضداد کا نقشہ نظر آتا ہو جس کی شخصیت میں آہنی خصوصیات بھی ہوں اور آنسوئوں کی نرمی و نازکی بھی ، جو میدانِ جنگ میں سرخیل بہادراںو تلوار کا دھنی ہو تو تاریک راتوں میں عابد شب زندہ دار اور ہر ایک سے بے نیاز و غنی بھی ، جو یتیموں کیلئے مجسم شفقت ہو اور طاغوت و مستکبرین کے لئے مجسم قہر ونفرت بھی ۔
یقینا ڈاکٹر مصطفےٰ چمران کے بارے میں کچھ لکھا اور کہا جائے تو یہ بہت دشوار اور سخت ہے ۔ چمران مردِ عمل کا نام ہے ، مردِسخن نہیں مرد میدان کا نام ہے کسی باتیں بنانے والے کا نہیں حقیقی مردِ خدا کا نام ہے صرف خدا خدا کرنے والے کا نہیں تلوار و تفنگ کے دھنی کو چمران کہتے ہیں جو راہ خدا میں سب کچھ دے دے ایسے سخی کو چمران کہتے ہیں جسے اسکی زبان سے نہیں اس کے کام سے پہچانا جائے ایسے عمل پرست انسان کو چمران کہتے ہیں وہ شخصیت جو کہیں بھی زبانی جمع خرچ کے قائل نہ تھی بلکہ اسکا دوسروں سے امتیاز ہی یہی تھا جو کہتے اس پر پہلے عمل کرتے پھر زبان کھولتے انہیں اس صدی میں اسلام کے تصور ہجرت کا نمونہ بے بہا کہا جا سکتا ہے ، دور معاصر میں جذبہ عشق و شہادت کی چلتی پھرتی تصویر کا نام چمران ہے ۔ جنوبی لبنان کے مالک اشتر کربلائے خوزستان کے علمدار کے بارے میں انسان کہے تو کیا کہے لکھے تو کیا لکھے ۔ شک نہیں کہ علی اور حسین علیھما السلام کی راہ چلنے والوں کی شخصیت کی تصویر کشی مادی کلمات اور دنیاوی معیاروں کے مطابق ممکن ہی نہیں ہے ۔
البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی قابل افتخار شہادت اور انسان ساز قربانی کی سالگرہ کے موقع پر جہاں تک ممکن ہو ان کی شخصیت ، ان کے افکار، ان کی راہ اور ان کی مساعی جمیلہ کا تعارف کرایا جائے۔ تاکہ عصر غیبت کے ان آسمان شہادت پر روشن دمکتے ہوئے ان منور ستاروں کی تابناکیاں آج کی نئی نسل کے لئے اس ظلمت کے دور میں نشان منزل بن سکیں۔
ڈاکٹر مصطفی چمران نے ١٣١١ھ ہجری شمسی (١٩٣٢ء عیسوی ) میں تہران کے خیابان پانزدہ خرداد(بوزرج مہدی) میں "بازار آہنگرھا" میں آنکھیں کھولیں اور اپنی تعلیم کا آغاز" مدرسہ انتصاریہ" سے کیا اور ثانوی تعلیم "دارلفنون البرز"میں حاصل کی اور پھر ٹیکنیکل کالج میں داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے ١٤٣٤ء ہجری شمسی ١٩٥٥ء میں الیکٹرومکینکس کے شعبے میں ڈگری حاصل کی اورپھر ایک سال کیلئے وہیں پر پڑھاتے رہے۔ آپکی خصوصیت یہ تھی کہ اپنی تعلیمی زندگی میں ہمیشہ اول آتے رہے۔ ١٣٣٧ہجری شمسی(١٩٥٨ء )میں انہیں اسکالر شپ ملی اور امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے کیلیفورنیاکی مشہور امریکی یونیورسٹی سے الیکٹرونکس اور پلازما فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی فزکس میں پی ایچ ڈی کے حصول کے بعد آپ نے ڈگری کو دنیا کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ واپس لبنان پہنچے وہاں امام موسی صدر کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل اسکول کی ذمہ داریوں کو سنبھالا ، پھر واپس ایران آئے یہاں مجاہدین کی تربیت کی پاوہ کے محاذ پر کمانڈر رہے انجام کار ایران کے وزیر دفاع قرار پائے لیکن یہ ساری دنیاوی ترقیاں انہیں آگے بڑھنے سے نہ روک سکیں یہاں تک یہ لقاء اللہ کی منزل پر پہنچ گئے جہاں سرخ موت انکا انتظار کر رہی تھی یوں جام شہادت نوش کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے ۔
پیش نظر تحریر ایک کوشش ہے اس عظیم شخصیت کی سالگرہ پر ا سکے افکار و اسکے سوز نہاں کو سمجھنے کی آئیں دیکھیں اس شخصیت نے اپنے مالک کے حضور کس طرح مناجات کی ہے ۔
خدا کے حضور اپنی ایک مناجات میں شہید کچھ اس طرح فریادی ہیں :
" پروردگار انسان کو اسی قدر جزا اور اجر دیتا ہے جس قدر اس نے آلام اور مشکلات کا سامنا کیا ہو ۔ہر انسان کی قدر اور واقعی قیمت کا پتہ انسان کے غموں اور درد و الم کی کیفیتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ خداکے مقرب بندے دوسرے تمام افراد سے زیادہ شاید اسی لئے درد و مصیبت میں مبتلاء ہوتے ہیں۔
علی ع کی طرف دیکھیں ! محسوس ہوگا کہ علی کا بند بند درد و رنج میں عجین ہو گیا ہو علی ع جا جوڑ جوڑ در د و آلام کو بیان کرتا نظر آئے گا۔
حسین ع کی طرف نظر ڈالیں! جو درد و مصیبت کے لامتناہی دریا میں یوں غوطہ زن ہوئے کہ جس کی نظیر کائنات میں نہیں ملتی .
زینب ع کو دیکھیں !کس طرح درد و مصیبت سے مانوس ہوئی یہ خاتون ! اور کیوںنہ ہو درد انسان کے دل کو بیداری عطا کرتا ہے،انسان کی روح کو پاکیزہ بناتا ہے ،غرور و خود خواہی کے خود ساختہ قلعوں کو مسمار کرتا ہے ،نخوت وتکبّر کو نیست و نابود کرتا ہے .
دراصل ہوتا یہ ہے کہ انسان کبھی کبھی خود کو فراموش کردیتا ہے ،انسان بھول جاتا ہے کہ اس کے پاس ایک بدن ہے وہ بدن جوکہ ضعیف اور ناتواں ہے ۔اتنا ناتواں اور ضعیف کہ دنیا کی ہر مشکل کے سامنے خطر پذیر ہے. انسان کبھی کبھی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسکے پاس اس دنیا میں چند روزہ زندگی کہ علاوہ کچھ بھی نہیں ہے وہ یہ فراموش کر دیتا ہے کہ اسکا یہ مادی جسم اسکی روح سے قدم ملا کر کبھی نہیں چل سکتا اور اسی فراموشی کے نتیجے میں انسان احساس ابدیت کرتا ہے احساس قدرت کرتا ہے احساس غرور کرتا ہے اپنی فنا ہو جانے والی زود گذر کامیابیوں میں مست ہوکر اپنے آرزوؤں کے محلوں میں کھو جاتا ہے اور پھر ہر طرح کے ظلم ہر طرح کی زیادتی کو اپنے لیے روا سمجھنے لگتا ہے لیکن جب اس پر مصیبت پڑتی ہے تو اسکو اپنی حقیقت کا احساس ہوتا ہے تب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ خود خواہی اور خود غرضی و خود ستائشی کے مضر اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
میرے مالک ۔! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے فقیر بنایا تاکہ میں بھوکوں اور ناداروں کے غم و رنج کو سمجھ سکوں اورانکے اندر پائی جانے والی اضطرابی کیفیت کو درک کرسکوں .
پروردگار ۔! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے میرے اوپر بارانِ نعمت کو رواں رکھا تاکہ ظلم و جھل کے وحشت ناک طوفان میں گھر کر میری حق طلبانہ آواز دشمنوں کے نقار خانہ میں طوطی کی آواز کی طرح محو ہوجائے اور میں درد کے اتھا ہ گہرے اور با شکوہ دامن میں اپنے چہرے کو چھپا کر علی ع پر پڑنے والی مصیبتوں اور غموں کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں لمس کرسکوں. علی ع جو نشان عظمت تھا، علی ع جو نمونہ ٔ عمل تھا ،علی ع جو مظہر اسلام تھا ،وہ علی ع جو مظہر عبادت و محبت و ایثار تھا، وہی علی ع اپنے تمام تر صفات و فضائل اور انکی تابندگی کے باوجود لوگوں کے الزامات کی تیروں کا شکار ہوا اس پاکیزہ ذات پر تہمتوں کی بارش ہوئی اور آج چودہ صدیاں گزرجانے کے بعدبھی طاغوتی طاقتوں کے پلید و رذیل پرپیگنڈے مسلمانوں کی اکثریت کے ذہنوں میں باقی ہیں اور آج بھی کروڑوں لوگوں کے لیے یہ شخصیت نا شناختہ ہے۔
مالک۔! میں تیرا شکر گزار ہوں کے تونے مجھے درد آشنا دل دیا تاکہ میں دردمندوں کے درد کو سمجھ سکوں اور درد کی کیمیائی حقیقت کی تہ تک پہونچ سکوں اپنے وجود کی نا پختگی کو آتش درد میں جلاؤں اور اپنی نفسانی خواہشات کو درد و غم کے پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر چکنا چور کردوں تاکہ زمیں پر چلتے وقت جب بھی میں سانس لوں یوں میرا ضمیر مطمئن و آسودہ خاطر ہو اور میں اپنے وجود کی حقیقت کو پا سکوں اسے محسوس کر سکوں .
مالک۔! تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے آتش عشق میں جلایا اور اسطرح میرے سامنے تمام موجودات اور میری تمام خواہشات عشق و معشوق کے وصال کی راہ میں بے وقعت اور بے اہمیت ہو گئیں .
مالک۔! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے لذت معراج عطا کی تاکہ گاہے گاہے میں دنیا کے ماوراء بھی دیکھ سکوں اور پھر تیرے لقا ء کے علاوہ کوئی اور خواہش دل میں نہ رکھوں ملکوت اعلی کی جانب بازگشت میرے لیے شکنجہ کا سبب نہ ہو پھر میں کسی چیز سے دل نہ لگا سکوں !
مالک۔! مجھے خائن نہ بنانا کہ میں کسی پر کوئی تہمت نہ لگاؤں اس لیے کہ تہمت ایک ظالمانہ خیانت ہے.
مالک۔! میری راہنمائی کر! کہ میں بے انصاف نہ بنوں اس لیے کہ جو انصاف نہیں کرسکتا اسکے اندر شرافت نہیں پائی جاتی۔
مالک۔! میری ہدایت کر تاکہ میں کسی کے حق کو ضایع نہ کروں اسلیے کہ کسی ایک انسان کے حق کو ضائع کرنا اسکی بے احترامی ہے اور انسان کی بے احترامی کفر و شرک کے مترادف ہے۔
مالک۔! مجھے غرور اور خودخواہی کی بلاؤں سے نجات دے تاکہ میں اپنے وجود کے حقائق کو دیکھ سکوں .
مالک۔! دنیا کی پستی اور نا پائیداری کو ہمیشہ کے لیے میری نظروں میں مجسم بنادے تاکہ میں تیری یاد سے دو رنہ رہ سکوں .
مالک۔! میں ضعیف ہوں نا چیز ہوں مجھے دیدۂ عبرت اور چشم بصیرت عطا کردکہ اپنی نا چیزی اور پستی کے ساتھ ساتھ تیری جلالت و عظمت کو سمجھ سکوں اور تیری تسبیح اسطرح کروں جیسا کے تیرا حق ہے.
مالک۔! ظلم و ستم سے میرا دل بہت دور ہے مجھے نفرت ہے ظالم سے مجھے ظلم سے سخت کڑھن ہوتی ہے تجھے تیری عدالت کی قسم زمرۂ ظالمین میں شمار مت کرنا .
مالک۔! مجھے ایک ایسا فقیر بنا دے جو دنیا کی تمام جھلملاہٹوں سے بے نیاز ہو .
مالک۔! میں درد مند ہوں میری روح شدت ِ درد سے تڑپ رہی ہے میرا دل دھڑک رہا ہے احساس کے شعلے بلند ہیں میرے وجود کا بند بند شدت درد و کرب سے فریاد کر رہا ہے.
مالک۔! مجھے بستر شہادت پر بلا کر پر سکون کر دے میں تھک چکا ہوں دل شکستہ ہوں نا امید ہوں اور اب میری کوئی آرزو نہیں ہے احساس کر رہا ہوں کے جیسے یہ دنیا اب میرے رہنے کی جگہ نہیں ہے میں سب سے وداع کرنا چاہتا ہوں اور خود تنہا رہنا جاتا ہوں میں چاہتا ہوں کوئی میرے ساتھ نہ رہے میں ہوں اور میرا خدا اور بس !!!
مالک۔! میں تیری طرف آرہا ہوں مجھے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے "۔
Add new comment