والدین کا رویہ ، طرز عمل اور ان کا برتاو اولاد پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ والدین کا ایک دوسرے کا ساتھ جتنا اچھا رابطہ ہوگا اتنا ہی زیادہ بچے فکری ، ذھنی ، جسمانی اور روحانی حوالے سے سالم و خوش اخلاق تربیت پائیں گے ، مرد و زن ، میاں بیوی کے درمیان موجود جسمانی اور ظاھری فرق ھرگز زندگی میں اختلافات کی جڑ اور بنیاد نہیں بن سکتا جیسا کہ قران کریم نے اس اہم گوشہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ « ... وَمَا خَلَقَ الذَّکرَ وَالْأُنْثَىٰ ، إِنَّ سَعْیکمْ لَشَتَّىٰ » ۔ (۱) اور اس [خدا] کی قسم جس نے مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے بے شک تمہاری کوششیں مختلف قِسم کی ہیں ۔
والدین اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں صداقت، انکساری، تقوائے الھی ، اطمینان اور خود اعتمادی کا شجر اور پودا لگائیں ، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ و سلم اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ بچے ماں باپ کے ہاتھوں میں امانت ہیں جن کے حق میں احساس مالکیت کئے بغیر ان کی حفاظت ضروری و لازمی ہے ، ہر بچہ اپنی رشد و بالندگی کی عمر میں ماں باپ کی عطوفت و مہربانی کا ضرورت مند ہے اور اس محبت و مہربانی کے دو اہم بنیادی اثرات ہیں :
ایک : بچے کے حق میں ماں باپ کی محبت ان کی روح میں استحکام ، اطمینان اور خود اعتمادی لاتی ہے ۔
دو: بچے کے حق میں ماں باپ کی محبت، انہیں شفیق ، مہربان اور خوش اخلاق بنا دیتی ہے کہ جو ائڈیل سماج کی تعمیر اور تشکیل کی اساس و بنیاد ہے ۔
البتہ دوسری جانب ماں باپ کے حق میں بچوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ، قران کریم کی نگاہ میں ماں باپ کے حق میں بچوں کا کردار احترام و محبت سے بھرا ہونا چاہئے جیسا کہ سورہ اسراء کی ۲۳ ویں ایت میں ایا ہے : «وَقَضَىٰ رَبُّک أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیاهُ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا إِمَّا یبْلُغَنَّ عِنْدَک الْکبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ کلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا کرِیمًا* وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا کمَا رَبَّیانِی صَغِیرًا» اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اوران سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ۔ (۲)
بلا شک و شبہ ماں باپ کے احترام اور ان کے سامنے سرتعظیم خم کرلینے کے حکم کی بنیاد اندھی تقلید نہیں ہے بلکہ کیوں کہ قران کریم کی نگاہ سے یہ عمل نادرست اور غلط ہے ، قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ ہر انسان اپنی عقل اور فکر کے وسیلہ صحیح اور غلط کی تشخیص دے اور عقل و فکر کی بنیاد پر صحیح و غلط راستہ میں فرق پیدا کرے ، جیسا کہ سورہ لقمان کی ۲۱ ویں ایت شریفہ می ایا ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا «وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ کانَ الشَّیطَانُ یدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِیرِ» (۳) ؛ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کرتے ہیں جس پر اپنے باپ دادا کو عمل کرتے دیکھا ہے چاہے شیطان ان کو عذاب جہّنم کی طرف دعوت دے رہا ہو۔
البتہ اس مقام پر اس بات پر توجہ لازمی و ضروری ہے کہ جو بچے بالغ ہوچکے ہیں وہ مستقل ہیں اور وہ اپنے اچھے یا برے اعمال کے خود جواب دہ ہیں جیسا کہ قران کریم نے کہا کہ «کلُّ نَفْسٍ بِمَا کسَبَتْ رَهِینَةٌ ؛ ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے » (۴) اگر اس میدان میں کوئی پیچھے رہ گیا تو ماں باپ خطا کار نہیں ہیں جیسا کہ نیکی کی دنیا میں بھی ہر کوئی عمل کی جزاء خود دریافت کرے گا کیوں کہ قران کریم کا ارشاد ہے " فَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرٗا يَرَهُۥ وَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٖ شَرّٗا يَرَهُۥ ؛ پھر جس شخص نے ذرہ برابرنیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ لیل ، ایت ۳ و ۴ ۔
۲: قران کریم ، سورہ اسراء ، ایت ۲۳ ۔
۳: قران کریم ، سورہ لقمان ، ایت ۲۱ ۔
۴: قران کریم ، سورہ مدثر ایت ۳۸ ۔
۵: قران کریم ، سورہ زلزلہ ، ایت ۷ و ۸ ۔
Add new comment