ایمان و عمل صالح اور وہ لوگ جو گھاٹے میں نہیں

Mon, 05/02/2022 - 19:28

صدرِ اسلام میں خوارج کی طرز فکر یہی تھی اور آج بھی کچھ لوگ یہی خیال و گمان کرتے ہیں کہ بنیادی چیز عمل ہے اور ایمان کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔اور اسی لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر لوگ عمل کے اعتبار سے ویسے ہی ہوں جیسے ایک اچھے مسلمان ہوتے ہیں تو یہ لوگ اگرچہ خدا کو نہ بھی پہچانتے ہوں اور قیامت پر ایمان نہ رکھتے ہوں تب بھی چونکہ ان کا عمل  اچھا ہے اس لیے وہ ساری چیزیں جس کی طرف انبیاء دعوت دیتے ہیں یعنی دنیا اور آخرت کی سعادت پر یہ لوگ بھی فائز ہیں(اور انکے اور وہ مؤمنین جو عمل صالح انجام دیتے ہیں کے درمیان) کوئی فرق نہیں ہے؛اور ایمان بس مقدمہ ہے۔

ایمان و عمل صالح اور وہ لوگ جو گھاٹے میں نہیں

قرآن اپنی ترجمانیوں اور تعبیرات میں لفظ«عمل صالح»  استعمال کرتا ہے ، یعنی مہذب اور نیک عمل، یہ«نیک عمل» ایک نِسبی اور متغیر مفہوم رکھتا ہے،مختلف اوقات میں اسکے معنی و مفاہیم بدلتے رہتے ہیں،اسی طرح افراد و اشخاص پرصادق آنے میں بھی فرق رکھتا ہے،جہاں یہ عبارت﴿ َعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾یہ بیان کرتی ہے کہ انسان کو عمل کرنا چاہیئے اور عمل کرنا واجب و لازم و ضروری ہے وہیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کا عمل ہر مقام پر شائستہ اور مہذب و نیک ہو؛یعنی جن حالات میں وہ ہے اور جن چیزوں کا زمانہ تقاضا کرتا ہے ان سب کو مجموعی طور پر پہچانتے ہوئے اور انکی تشخیص دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے کہ اس وقت مجھ پر کونسا عمل کب واجب ہے اور مجھے کیا کرنا چاہیئے، اس بنیاد پر ﴿ َعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾کی عبارت جہاں عمل کا تقاضا کرتی ہے اور عمل کے مسألہ کو بیان کرتی ہے وہیں انسان کی ذمہ داریوں کو بھی واضح کرتی ہے۔﴿ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾یعنی ایسے عمل پیرا مؤمنین کہ جو عمل بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے بھی ہیں،یعنی حالات کو سمجھتے ہیں اور زمانہ شناس ہوتے ہیں اور موقع محل کو سمجھتے ہوئے جانتے ہیں کہ ابھی ان حالات میں کیا کرنا بہتر ہے اور کسی حکمت عملی کو اپنانا اور کیسے عمل کرنا ہے اور کس چیز پر عمل کرنا ہے۔([1])

*  ممکن ہے کہ کوئی یہ گمان کرے کہ میرا ایمان تو پکّا اور محکم ہے،اور جب انسان کا ایمان پکا اور محکم ہوگیا تو پھر عمل کرے یا نہ کرے کوئی فرق نہیں پڑتا،جیسا کہ بعض صوفیانہ مزاج رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ جناب بس دل کو پاک و صاف رکھیئے، اپنے ایمان کو مضبوط اور قوی رکھیئے ،چاہے عمل ہو یا نہ ہو کوئی بات نہیں یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، ﴿ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾([2])اس قدر عبادت کرو کہ ایمانِ یقینی کے مرحلے تک جا پہنچو؛اور پھر جب اس مرحلے تک پہنچ جاؤ تو پھر اب اسے چھوڑ دو،عمل کی اب کیا ضرورت ہے اب تو تم اپنی منزل اور گوہر مقصود تک پہنچ چکے ہو!یہ شیطانی وسوسہ ہے۔

اس نظریہ کے نقطۂ مقابل کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو ایمان کی تحقیر کرتے ہیں، صدرِ اسلام میں خوارج کی طرز فکر یہی تھی اور آج بھی کچھ لوگ یہی خیال و گمان کرتے ہیں کہ بنیادی چیز عمل ہے اور ایمان کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔

اور اسی لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر لوگ عمل کے اعتبار سے ویسے ہی ہوں جیسے ایک اچھے مسلمان ہوتے ہیں تو یہ لوگ اگرچہ خدا کو نہ بھی پہچانتے ہوں اور قیامت پر ایمان نہ رکھتے ہوں تب بھی چونکہ ان کا عمل  اچھا ہے اس لیے وہ ساری چیزیں جس کی طرف انبیاء دعوت دیتے ہیں یعنی دنیا اور آخرت کی سعادت پر یہ لوگ بھی فائز ہیں(اور انکے اور وہ مؤمنین جو عمل صالح انجام دیتے ہیں کے درمیان) کوئی فرق نہیں ہے؛اور ایمان بس مقدمہ ہے۔

ایمان کسی بھی صورت میں مقدمہ نہیں ہے،نہ ہی ایمان مقدمہ ہے اور نہ ہی عمل،ایمان و عمل دونوں ہی ساتھ ساتھ انسان کی سعادت اور کامیابی و کامرانی کے ارکان ہیں۔([3])

*﴿وَالْعَصْرِ﴾([4])زمانہ کی قَسم،یا قسم ہے عصر کی،کہ کیا؟ہم چاہتے ہیں کہ ایک حقیقت کو انسان کے سامنے واضح کردیں کہ:

﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾([5])، اس آیت کے ذریعہ اس صورتحال کا اظہار ہے کہ انسان کس حالت میں ترقی کے مراحل طئے کرتا ہے اور  کس حال میں وہ گرتا چلاجاتا  ہے اور گھاٹے کا سودا کرتاہے۔

ارشاد ہے: عصر کی قسم، کہ انسان گھاٹے ،نقصان  اور خسارےمیں ہے، مگر یہ کہ....

«مگر یہ کہ»....

انسان مسلسل کماتے رہنے کی حالت میں  ہے ، یعنی سرمایہ لاگانےاور کچھ لینے کے عمل میں ہے۔

یہ،انسان کی ہمیشہ کی اور دائمی حالت ہے،اسی لیے قرآن مجید یہ نہیں کہتا کہ:«ان الانسان خاسر» یا «ان الانسان خسر» یا «خسر الانسان»یا «یخسر الانسان»،بلکہ ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾بے شک انسان خسارہ میں ہے۔

قرآن میں جب ارشاد ہوتاہے کہ«خسارہ میں ہے»تو اس سے ایک استمراری اور دائمی حالت کو بیان کرتا ہے؛یعنی انسان ہمیشہ لین دین کے معاملات سے گھرا ہوا ہے لیکن جتنا دیتا ہے اس سے کم پاتا ہے۔

وہ لوگ جو گھاٹے میں نہیں ہیں

اب کیا  تمام کے تمام انسان ایسے ہی ہیں ؟کیاانسان مطلقا ًخسران میں ہے ؟ نہیں ،انسان مطلقا ًاور پوری طرح سے ایسا نہیں ہے ،اس شرط کے ساتھ انسان ایسا نہیں ہے کہ﴿ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾اگر انسانوں کے پاس یہ چار چیزیں ہوں تو پھر وہ گھاٹے اور نقصان اٹھانے والوں میں نہیں شمار ہوگا بلکہ اس کا سودا فائدے کا سوادا ہوگا یعنی نہ صرف یہ کہ اسے نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا بلکہ جتنا وہ لگائے گا اس سے کہیں زیادہ اس سے فائدہ  حاصل کرے گا، اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: ایمان، عمل صالح ،حق کی وصیت، اور صبر کی تلقین۔

[۱] ایمان

اس مقام پر قرآن کریم ایمان کو بشر کی حیات کا ضروری اور لازمی جز قرار دیتا ہے اور اور انسانی کامیابی و کامرانی کے اہم ترین رکن میں اسے شمار کرتا ہے یعنی انسان اگر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ چاہے جتنا بھی تلاش و کوشش کر لے فائدہ کم اور گھٹا زیادہ ہوگا: ﴿لَفِي خُسْرٍ﴾....

[۲]دوسری شرط: عمل صالح

قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ انسان اپنےسودے میں گھاٹے کا شکار ہے مگر وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہوں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف ایمان کافی ہے؟ نہیں کافی نہیں ہے، یہ فکر و ذہن و روح کا مقام و مرحلہ ہے ؛ انسان کو چاہیے کہ اپنے ایمان کے مطابق ہے اور جیسا بھی اس کا ایمان حق ہے اس کے مطابق عمل و حرکت اور فعّالیت انجام دے، یعنی انسان اپنی  منزل تک پہنچنے کے سفر میں [ان دونوں چیزوں کا محتاج ہے] اسی طرح سے کہ جیسےانسان بغیر ایمان کے حیران و پریشان اور سرگرداں ہےاور جناب موسیٰ کی قوم کی طرح ہےکہ جو «تیہ»کے میدان میں اپنے ہی چاروں طرف گھوم رہے تھے اور آخر میں آپ نے پہلے ہی مقام پر کھڑے نظر آتے تھے ،تنہا ایمان بھی کافی نہیں ہے ؛ ہر ایمان  کا تقاضہ عمل اور حرکت ہے اب کیا ہر طرح کی عام فعّالیت ؟ نہیں،نیک اور اچھی فعّالیت ،شائستہ فعّالیت ، شائستہ عمل کیا ہے؟شائستگی ایک نسبی امر ہے؛جب ہم کہتے ہیں « اچھا اور شائستہ کام »تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کون سا کام اچھا ہے ؟اور کس چیز کے لیے اچھا ہے؟[ جواب یہ ہے کہ:] 

 اچھا کام وہی ایمان ہے ، آپ کہ جو ایک برتر حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مقابل میں سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اسی حقیقت برتر نے آپ کو ایک آئیڈیل اور نمونہ مقصد عطا کیا ہے ،تو پھر عمل بھی اسی عظیم مقصد اور اسی آئیڈیل چیز کے کے مطابق ہونا چاہیئے....

اسی وجہ سے شاید قرآن مجید نے دسیوں جگہوں پر ان دونوں ارکان کو باہم ذکر کیا ہے ﴿آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ قرآن کی تاکید اس وجہ سے ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ نہ ہی ایمان اور نہ ہی عمل، یا فقط ایمان بغیرعمل کے یا فقط عمل بغیر ایمان کے[کافی ہیں،] بلکہ ایمان و عمل {دونوں ہی ضروری ہیں۔]....

قرآن نے ایمان و عقیدے  اور محبت کو ہمیشہ ہی عمل کے ساتھ جوڑ کے پیش کیا ہے، ایسا انسان جس کا ایمان، عمل کے ہمراہ نہ ہو وہ ایک ایسے پرندے کی طرح ہے کہ جس کابس ایک  ہی پر ہو؛اور یہ بات واضح سی ہے کہ ایک پر کے ساتھ پروازنہیں کی جاسکتی۔

[۳] حق کی وصیت

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایمان اور عمل کافی  ہیں؟ جی ہاں! بے شک کافی ہیں لیکن اس کے نفاذ کے لیے ایک اجرائی ضمانت کا ہونا نا لازم و ضروری ہے؛ یعنی ایمان و عمل اسی وقت کافی ہوں گے کہ جب معاشرہ اور جس جگہ پر ہم زندگی گزار رہے ہیں وہاں کا ماحول ایمان اور عمل کے لیے مساعد د اور ہموار ہو اگر معاشرہ اور ہمارے آس پاس کا ماحول نامساعد ہو گا تو ایمان اور عمل کا تحقق ممکن نہیں ہوپائے گا اور وہ ختم ہو جائیں گے،کیونکہ یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے اس لئے کہ لوگ لوگ  ہمیشہ  ایک دوسرے  کے وجدان کو حق کے لیے بیدار کرتے رہیں: ﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾

«تواصی»کا مصدر «وصیت»ہے،اور «وصیت»کا مطلب تلقین کرنا، توصیہ کرنا، سفارش کرنا،تاکید کرنا،تذکّر دینا ہےاور «تواصی»کا مطلب متقابل طور پر یعنی ایک دوسرے کو تذکّر دینا اور ایک دوسرے سے گزارش کرنے کے معنوں میں ہے....

«حق» یعنی وہ ثابت اور اٹل حقیقت جو باطل کے مقابل میں قرار پائے، قرآن مجید نے انسانیت کے راستے کو کہ جسے اس نے صراط مستقیم قرار دیا ہے؛ حق کہا ہے، یعنی وہی چیزجو حقیقتِ ثابت ہے یعنی صراط مستقیم اگر انسان ان اسی راہ پر چلے تو پھر وہ صحیح راستے پر چل رہا ہے کیونکہ  اس کے علاوہ  جتنے بھی راستے ہیں وہ باطل اور بے ہودہ ہیں ؛اس صراط مستقیم اور حقیقت کے علاوہ جتنے بھی راستے ہیں وہ گمراہی اور بے راہ روی کی طرف لے جاتے ہیں اور کہیں بھی نہیں پہنچاتے اور بھٹکانے والے راستے  ہیں۔([6])
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
([1]) آشنائی با قرآن (10 ـ 14 )،مجموعہ آثار شہید مطہری، ج28 ،ص762 ـ 763 اور 765۔
([2]) حجر (۱۵): ۹۹۔
([3]) آشنائی با قرآن (10 ـ 14 )،مجموعہ آثار شہید مطہری، ج28 ،ص762 ـ 763۔
([4]) عصر(۱۰۳): ۱۔
([5]) عصر(۱۰۳): ۲-۳۔
([6]) آشنائی با قرآن (10 ـ 14 )،مجموعہ آثار شہید مطہری، ج28 ،ص7۴۷ ـ 7۴۸ اور 7۵۲ ـ۷۵۳۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50