چکیده:حضرت زہراء علیھا السلام ولی انبیاء تھیں اور اسی طرح تمام انبیاء ان کے وجود پر ایمان اور اعتقاد رکھتے تھے ۔
خدا وند متعال نے حضرت آدم کو خلق کیا اور ملائیکہ نے حضرت آدم کو سجدہ کیا اور پھر حضرت آدم نے سوال کیا خدایا کیا میرے علاوہ بھی کوئی ہے کہ جو تمھارے محبوب اور پسندیدہ ہو ؟
تب خدا وندمتعال نے پانچ نور دیکھائے تو حضرت آدم نے پوچھا بارالہا یہ کون ہیں ؟
خطاب ہوا ان میں میرا حبیب محمد (ص) اور ان کے چچا زاد بھائی علی، انکی بیٹی فاطمہ اور دو نواسے حسن و حسین ہیں ۔
اب یہاں پر جناب سیدہ کی شخصیت کو بعض قرآنی آیات سے ذکر کریں گے :
1۔ آیہ تظھیر
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِب عَنكمُ الرِّجْس أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطهِّرَكمْ تَطهِيراً
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔[1]
اس آیہ کے شان نزول کے بارے میں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں کہ جو حکایت کرتی ہیں کہ یہ آیہ ام سلمہ کے گھر نازل ہوئی تب رسول خدا (ص) حضرت صدیقہ ،امیر المؤمنین ،حسنین علیھم السلام سب تشریف فرما تھے ، ام سلمہ حضور(ص) سے تقاضا کرتی ہیں کیا میں آپ کی جمع میں داخل ہو سکتی ہوں ؟ تو رسول (ص) نے منع فرمایا کہ نہیں تم نہیں آسکتی کیونکہ یہ فقط ھم پانچ کے لیے مخصوص ہے۔[2]
رسول خدا (ص) ہر روز جب نماز کیلئے مسجد تشریف لے جاتے تھے تو پہلے صدیقہ طاہرہ کے دروازے پر جاتے اور فرماتے : السّلام عليكم يا اهل البيت، إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِب عَنكمُ الرِّجْس أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطهِّرَكمْ تَطهِيراً
سلام ہو آپ پر اے اہل بیت ، بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیتعلیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔[3]
2۔ آیہ مباہلہ
قُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَأَنْفُسَنا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ
ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔[4]
یہ آیہ صراحتاً اشارہ کر رہی ہے کہ پیامبر اکرم (ص) نے جب انصار سے مباہلہ کیا تو سیدہ زہراء بھی اس مباہلہ میں شامل تھیں یعنی یوں کہاں کہ جناب زہراء کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے کہ جو مصداق ہیں اس آیہ کا ۔ [5]
3۔ فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
پھر آدم علیہ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے .[6]
اس آیہ کے بارے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس جھان کی خلقت کے اسباب میں سے ایک مہم سبب کا نام فاطمۃ الزہراء ہے ۔
جب حضرت آدم کی خلقت ہوئی اور ان سے ترک اولی ہوا تو جبرائیل نے کہا اے آدم اگر چاہتے ہو کہ تمھاری توبہ قبول ہو جائے تو ان پانچ ہستیوں کا واستہ دو تمھاری توبہ قبول ہو جائے گی تو حضرت آدم نے پوچھا وہ پانچ ہستیان کون ہیں تو خطاب ہوا سنو ، میرا رسول اور علی ،میرے بنی کی بیٹی فاطمہ اور ان کے دو بیٹے حسن اور حسین ہیں ۔ان پانچ شخصیات کا واستہ دو تمھاری دعا قبول ہو جائے گی ،اور اس آیہ کریمہ میں جن کلمات کا ذکر ہوا ہے وہ کلمات یہی ہیں کہ جو حضرت آدم کو عطا ہوئے ۔ [7]
4۔آیہ مودت
قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔[8]
یعنی پیامبر (ص) نے اجر رسالت میں اپنے اقرباء سے محبت مانگی ہے ۔[9]مسئلہ یہ ہے کہ اجر رسالت ایک عظیم مسئلہ ہے اور اس کے لیے رسول نے فقط اپنے اقرباء محبت کہا ہے[10] تو سوچنا پڑے کا کہ وہ اقرباء کون ہیں ، میری تحقیق کے مطابق شیعہ سنی کا اجماع ہے اس میں کہ اقرباء مولائے کائنات علی بن ابی طالب ،سیدہ فاطمۃ الزھراء ، حسن اور حسین علیھم السلام ہیں ۔[11]
5۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
بیشک ہم نے امانت کو آسمان زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے .[12]
یہ آیہ بھی ان آیات میں سے ہے کہ جو صدیقہ طاہرہ کی گواہی دیتی ہے ، یعنی جو امانت خدا نے آسمان و زمین کو دی ہے وہ یہی امانت ولایت ہے کہ پیامبر(ص)و امیر المؤمنین وفاطمہ و حسنین اور ائمہ علیھم السلام کی ولایت ہے ۔[13]
منابع
[1] سوره احزاب ، آيه 33.
[2] شأن نزول آية تطهير،
[3] مسند احمد، ج 2، ص 259 ـ 285 ، شواهد التنزيل، ج 2، ح 637 ـ 639 و 644 و 773.
[4] سوره آل عمران، آيه 61.
[5] صحيح مسلم، مسند احمد بن حنبل، سنن تِرمِذي، تفسير طبري، السنن الكبري (بيهقي)، الاغاني.
[6] . سوره بقره ، آيه 37
[7] الخصائص العلويه، ابو الفتح محمد بن علي نطنزي، الغدير، ج 7، ص 301
[8] سوره شوري ، آيه 23.
[9] كتاب فاطمه زهرا
[10] شرح المواهب اللَّدُنّيّه، ج 3، ص 21.
[11] كتاب فاطمه زهرا
[12] سوره احزاب آيه 72.
[13] معاني الاخبار ص 108 تا 110 .
Add new comment