سوره اعراف قرآن مجید کی ساتویں سورت ہے جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور قرآن مجید کے آٹھویں اور نویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اعراف کہا گیا ہے کیونکہ اس میں اصحاب اعراف کا تذکرہ موجود ہے، دیگر مکی سورتوں کی طرح سوره اعراف میں بھی زیادہ تر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں بیان ہے۔
سوره اعراف کا مختصر جائزه:سوره اعراف قرآن مجید کی ساتویں سورت ہے جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور قرآن مجید کے آٹھویں اور نویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اعراف کہا گیا ہے کیونکہ اس میں اصحاب اعراف کا تذکرہ موجود ہے، دیگر مکی سورتوں کی طرح سوره اعراف میں بھی زیادہ تر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں بیان ہے۔
مضامین
سوره اعراف دیگر مکی سورتوں کی مانند مکہ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بیشتر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں ہے۔اس سورت کا مقصد بھی مسلمانوں میں عقیدہ اور ایمان کے مبانی کو مضبوط کرنا ہے[1]۔ سوره اعراف میں ان عہد و پیمان کی طرف اشارہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے ان سے لیا ہے؛ ان میں سے ایک عالم ذر کی طرف اشارہ ہے اور جو قومیں توحید کے راستے سے بھٹک گئی ہیں ان کی ناکامی اور شکست کو بیان کرنے کے لیے اقوام ماضی اور گزشتہ انبیاء جیسے حضرت نوحؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت شعیبؑ کی امتوں کے انجام اور عاقبت کو بیان کیا ہے[2]۔ سوره اعراف کا نزول مکہ میں مسلمانوں کی اقتصادی خستہ حال حالات اور شعب ابی طالب میں اقتصادی محاصرے کے دوران ہونا اس عہد و پیمان کو یاد دلانا اور اس کی اہمیت بیان کرنا مقصود تھا جو انسانوں نے اللہ تعالی سے کیا تھا[3]۔
فضیلت
سورہ اعراف کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ہے۔ جو بھی سورہ اعراف کی تلاوت کرے گا؛ اللہ تعالی اسکے اور ابلیس کے درمیان ایک مانع قرار دے گا اور قیامت کے دن حضرت آدم(ع) کو اس کا شفیع قرار دے گا[4]۔ امام صادق(ع)سے بھی منقول ہے۔ جو شخص ہر مہینے سورہ اعراف کی تلاوت کرتا ہے قیامت کے دن ان لوگوں میں شمار ہوگا جن کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن[5]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۷۴.
[2] مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۷۵.
[3] طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص۶.
[4] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۶۰۸۔
[5] بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۵۱۵۔
Add new comment