تفسیر سورہ بقرہ
سوره اعراف قرآن مجید کی ساتویں سورت ہے جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور قرآن مجید کے آٹھویں اور نویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اعراف کہا گیا ہے کیونکہ اس میں اصحاب اعراف کا تذکرہ موجود ہے، دیگر مکی سورتوں کی طرح سوره اعراف میں بھی زیادہ تر حصہ مبداء اور معاد، توحید کا اثبات، قیامت کی عدالت، شرک سے مقابلہ، جہان آفرینش میں انسان کے مقام کی تثبیت کے بارے میں بیان ہے۔
خلاصہ: سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ"، "یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے" [مولانا محمد حسین نجفی کے ترجمہ کے مطابق]۔ اس مضمون میں اس آیت کی مختصر تفسیر بیان کی جارہی ہے۔
خلاصہ: سورہ بقرہ کی پہلی آیت "الم" ہے۔ یہ حروف، حروف مقطعہ کہلاتے ہیں۔ حروف مقطعہ قرآن کریم کی ۲۹ سورتوں میں ذکر ہوئے ہیں۔ ان کے کئی صفات ہیں جن میں سے بعض صفات کا اس مضمون میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔