ابن ابی یعفور نے حضرت امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ حضرت(ع) نے فرمایا : مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَوْنٍ الْقَلَانِسِيِّ عَنِ ابْنِ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ لَقِيَ الْمُسْلِمِينَ بِوَجْهَيْنِ وَ لِسَانَيْنِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَهُ لِسَانَانِ مِنْ نَارٍ. (۱)
اگر کوئی مسلمان کے ساتھ دوہرے چہرے اور دوہری زبان کے ساتھ پیش آئے تو وہ قیامت میں اس کی دو زبان ہوگی اور دونوں سے آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہوگا ۔
ایک دوسری روایت میں یوں منقول ہے کہ زید ابن علی نے اپنے اجداد سے اور انہوں نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام(ص) نے فرمایا: وعن زيد بن علي، آبائه، عن النبي صلى الله عليه وآله قال: يَجِي ءُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ ذُو اَلْوَجْهَيْنِ دَالِعاً لِسَانَهُ فِي قَفَاهُ وَ آخَرَ مِنْ قُدَّامِهِ يَلْتَهِبَانِ نَاراً حَتَّى يَلْهَبَا جَسَدَهُ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ هَذَا اَلَّذِي كَانَ فِي اَلدُّنْيَا ذَا وَجْهَيْنِ وَ ذَا لِسَانَيْنِ يُعْرَفُ بِذَلِكَ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ . (۲)
قیامت کے دن دوہرے چہرے کا انسان ایسی حالت میں محشور ہوگا کہ اس کی ایک زبان پشت گردن سے تو دو دوسری زبان آگے سے باہر ہوگی اور ان سے شعلہ بھڑک رہا ہوگا یہاں تک کہ اس کا پورا جسم آگ کی لپیٹ میں ہوگا ، اور اس کے بارے میں یہ کہیں گے کہ یہ وہی شخص ہے جس کا دنیا میں دوہرا چہرہ تھا اور اس کی دوہری زبان تھی ۔ الغرض قیامت میں ایسے انسان کی شناخت، انہیں صفات کے ذریعہ کرائی جائے گی ۔
اس بری اخلاقی صفت کے سلسلے میں کتابوں میں مزید اور بھی روایتیں موجود ہیں کہ جو انسان کو ان سے پرھیز کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔
دوہرے چہرے اور دوہری زبان کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی کے منھ پر اس کے جیسی اور پیٹھ پیچھے برائی کرے ، منھ پر تو اچھائیوں کے پل تیار کردے مگر پیٹھ پیچھے خامیوں اور خطاوں کے بت تراش دے ۔
منافق کی نشانیاں
رسول اسلام صلی الله علیه وآله نے ایک دوسری روایت میں منافق کی نشانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «ثلاثٌ مَن کُنَّ فِیهِ کانَ مُنافِقاً وَ اِنْ صامَ وَ صَلّی وَ زَعَمَ اَنَّهُ مُسْلِمٌ: مَنْ اِذا ائْتَمَنَ خانَ، وَ اِذا حَدَّثَ کَذِبَ وَ اِذا وَعَدَ اَخلَفَ...» (۳)
جس میں یہ تین صفات پائے جائیں وہ منافق ہے ولو یہ کہ وہ روزے رکھے ، نماز پڑھے اور خود کے مسلمان ہونے کا بھی تصور کرے ۔
ایک: خائن ہونا ؛ خیانتکار انسان منافق ہے کیوں کہ بظاھر خود کو امین جتاتا ہے مگر باطن میں ہمیشہ خیانت کرتا ہے ، لہذا مال و دولت اور امانت اس کے حوالہ نہیں کی جاسکتی ، اگر چہ بعض افراد کم سرمایہ کے مقابل تو امین ہوتے ہیں مگر جب بڑا سرمایہ اور گرانبہا چیز ان کے حوالے کی جاتی ہے تو وہ خیانت کر بیٹھتے ہیں ۔
دو: جھوٹ ؛ جھوٹا انسان منافق ہے کیوں کہ وہ اپنی چرب زبانی کے ذریعہ اپنی پلید اور بری نیت کو چھپا دیتا ہے ولو یہ کہ وہ نماز و دعا پڑھے ۔
سوم: وعدہ خلافی؛ وہ انسان جو اپنے وعدہ پر عمل نہ کرے وہ بھی منافق ہے کیوں کہ وعدہ کی وفا ایک نیک اور پسندیدہ صفت ہے اور فقہی حوالے سے کبھی وعدہ وفا کرنا واجب بھی ہے ۔
یہ صفت دانستہ طور سے یا نادانستہ طور پر ہمارے معاشرے میں رواج رکھتی ہے ، جب سامنے اتے ہیں تو علم ، حلم ، فن ، اخلاق ، صفات و کمالات کے محل سجا دیتے ہیں مگر جیسے ہی پیٹھ پیچھے پہونچتے ہیں ریتوں پر بنائے ہوئے یہ محل لمحوں میں زمین بوس کردیئے جاتے، اب نا علم موجود ہے ، نا حلم ہے ، نا اخلاقیات درست ہیں اور نا کوئی صفات و کمالات موجود ہیں۔
ہم ! خداوند متعال سے دست بہ دعا ہیں کہ اس ماہ مبارک کے صدقہ میں ہمیں اس بری صفت سے دور رکھے اور گذشتہ گناہوں کو بخش دے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، جلد۷۲ ، صفحه۲۰۴
۲: شیخ صدوق ، الخصال ، ج ١ ص ٢٠
۳: کلینی ، اصول الکافی ، ج ۲ ص ۲۹۰
Add new comment