روایتوں کے جملے اور نبی و معصوم اماموں علیھم السلام کی کلام میں جب چھان بین کی جائے اور ان کا بہ دقت مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بخوبی واضح و روشن ہوجائے گی کہ بندگی کے کچھ معیار اور اصول ہیں جس پر انسان کا اترنا لازم و ضروری ہے ۔
۱ - خداوند متعال کی ولایت پر ایمان: خداوند متعال نے چو کچھ بھی اسے دیا ہے خود کو اس کا مالک نہ سمجھے کیوں کہ غلام کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔
۲ - اظھار عاجزی: بندہ خود کے لئے کوئی تدبیر نہ کرے
۳ - ھر حال میں رضائے پروردگار ملحوظ نظر رکھنا : بندہ تمام وہ کام انجام دے جس کا پروردگار نے حکم دیا اور ھر اس کام سے پرھیز کرے جس سے اس نے منع کیا ہے ۔
بندگی اور عبادت ، امتیاز کا وہ مقام ہے جو انسانوں کو دیگر مخلوقات سے الگ کردیتا ہے ، اگر انسانوں کی حیات میں عبادت و بندگی نہ ہو پھر حیوانوں کے مانند اس زمین پر چند دنوں کی چلتی پھرتی زندگی پر موت کی چادر ڈال دی جائے گی اور لوگ اس بدبودار جسم سے نجات پانے کے لئے اسے منو مٹی میں دفنا دیں گے ۔
لیکن اگر یہی حیات اطاعت الھی میں گذرے تو برسوں بعد بھی جسم میں تروتازگی موجود رہے گی، جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ صحابی رسول اسلام (ص) حجر ابن عدی کا جسم ہے ، جو برسوں بعد بھی جب قبر سے نکالا گیا تو کفن تک میلا نہ ہوا تھا ۔
قران کریم اور احادیث میں لفظ عبادت کے متعدد اور مختلف معنی ہیں جو انسانی حیات کے تمام گوشے میں شامل ہے ، مگر اس لفظ عبادت کا ایک خاص مفھوم بھی ہے اور وہ انسانوں کا اپنے پروردگار سے دعا، نماز، ذکر اور قران کریم کے وسیلہ رابطہ قائم کرنا ہے جس کی انبیاء اور اولیاء الھی سلام اللہ علیھم نے بہت زیادہ تاکید ہے اس حد تک کہ امام صادق علیه السلام رسول اکرم صلّى الله علیه وآله وسلّم حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«أَفْضَلُ النّاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبادَةَ، فَعانَقَها بِنَفْسِهِ وَ باشَرَها بِجَسَدِهِ، وَ تَفَرَّغَ لَها، فَهُوَ لایُبالِی عَلی ما أَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیا، عَلی عُسْرٍ أَمْ عَلی یُسْرٍ.»[۱]
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں عبادت کا اشتیاق ہو، اپنے پورے وجود کے ساتھ عبادت سے مانوس ہو ، اپنا پورا وقت عبادت الھی میں گذارے اور دنیا کی آسانیوں اور پریشانیوں میں ھرگز اس کے قدم نہ ڈگمگائیں ۔
۴ - شوق عبادت :
اولیائے الھی علیھم السلام کی عبادتیں اور مناجات، ان زندگی اور حیات سے الگ اور خالی اوقات کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان کی حیات کا جزو ، سرمایہ اور ان کے روز مرہ کا پروگرام کا حصہ شمار ہوتی تھیں ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک مومن کی روح ہر دن ذات پروردگار سے مکمل مستفید نہ ہولے اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں بندگی کے وظیفہ پر صحیح عمل نہیں کرسکتی ۔
پروردگار عالم نے رسول اکرم ـ صلّى الله علیه وآله وسلّم ـ کو اپ کی بعثت کے ابتدائی دنوں میں کہ جو حضرت کے لئے نہایت ہی پرمشغلہ ایام تھے ، خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ «قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلیلاً ؛ [اے حبیب] راتوں کو اٹھئے مگر ذرا کم »[۲] یعنی خداوند متعال نے انہیں راتوں کو اٹھنے سے نہیں روکا بلکہ مقدار کم کرنے کی تاکید فرمائی ۔
اور راتوں کی مناجات کا مفھوم بھی یہی ہے جیسا کہ بعد کی آیتوں میں تلاوت کلام اللہ ، نماز ، دعا اور ذکر الھی کا تذکرہ ہے: «وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتیلاً ؛ اور ترتیل کے ساتھ قران کی تلاوت کریں ۔ »[۳]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی ، الکافي ، جلد۲ ، صفحه۸۳
۲: قران کریم ، سوره مزمل ، آیه ۲
۳: قران کریم ، سوره مزمل ، آیه ۴
Add new comment