کتاب «آداب المریدین» سے اقتباس
وَ لَهُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَنْ عِنْدَهُ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَ لا يَسْتَحْسِرُونَ ۔ سورہ انبیاء ایت (19)
زمین و آسمان کی کل چیزین اس خداوند متعال کے لئے ہیں، اور اس کے نزدیک «اس کی بارگاہ میں حاضر لوگ» اپنی عبادتوں پر غرور نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں ۔ (19)
آج میری کی گفتگو کا موضوع بندگی ہے ، ماہ مبارک رمضان بہت قریب ہے کہ جو ماہ بندگی ہے اور مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مطابق ایک ایسا مہینہ جس میں سونا اور سانس لینا بھی عبادت ہے ۔
بندگی، انسان کی خلقت کا مقصد، انسانی وجود کا جوھر اور انسانیت کو منزل کمال عطا کرنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ سورہ ذاریات 56 ویں آیت «وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ» [1] ھم نے جن و انس کی خلقت نہیں کی مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں ۔ مقصد خلقت حیات کے سلسلہ سے پورے قران کریم میں شاید اس سے زیادہ روشن اور واضح ایت نہیں مل سکتی جس میں اتنا واضح مقصد خلقت انسان بیان گیا ہو ۔
عبادت کے ظاھری اور لغوی معنی تو جیسا کہ راغب اصفھانی مفردات الفاظ قرآن کریم میں تحریر فرماتے ہیں : العُبُودِیَۃُ ؛ اِظّْھَارُ التّذَلُّلِ ، و العِبَادَۃُ ، اَبْلَغُ مِنْھَا لِاَنّھَا غَایَۃُ التّذَلّلِ ۔ عبادت انکساری اور خاکساری ہے اور عبادت اس بھی بالاتر ہے کیوں کہ عبادت انکساری اور خاکساری کی آخری حد ہے ۔
غلام کا واقعہ
اور اصطلاح کی دنیا میں «عبودیت» کا مفهوم خود کو الھی کمالات سے مزین اور آراستہ کرنا، اپنے کردار کو کردار پروردگار کا ائینہ قرار دینا اور جزو خداوند متعال کی ولایت اور سرپرستی کے ۔
خدا کی وحدانیت اور ولایت و سرپرستی ایک ہی سکہ کا دو رخ ہیں ، اپنے پورے وجود کے ساتھ الھی کمالات سے خود کو مزین کرنے کا والا بندہ ، جو کوئی بھی عمل ، صفت اور ذات میں خدا ملحوظ نظر رکھے تو خداوند متعال بھی تمام مراحل میں اس کا سرپرست اور اس کا عھدیدار ہوتا ہے یعنی خداوند متعال اس کا «ولیّ» اور وہ «ولیّ الله» ہوگا ۔
آداب بندگی :
راوی نے جب امام جعفر صادق علیه السلام سے حقیقت عبودیت کے بار میں معلوم کرنا چاھا تو آپ نے فرمایا:
«قُلتُ: یا أَبا عَبْدِاللهِ؛ ما حَقِیقَةُ الْعُبُودِیَّةِ؟ قالَ: ثَلاَثَةُ أَشْیاءٍ: أَنْ لا یَرَی الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ فِیما خَوَّلَهُ اللهُ مِلْکاً، لأنَّ الْعَبِیدَ لا یَکُونُ لَهُمْ مِلْکٌ، یَرَوْنَ الْمالَ مالَ اللهِ، یَضَعُونَهُ حَیْثُ أَمَرَهُمُ اللهُ بِهِ؛ وَ لاَ یُدَبِّرُ الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ تَدْبِیراً؛ وَ جُمْلَةُ اشْتِغالِهِ فِیما أَمَرَهُ تَعالی بِهِ وَ نَهاهُ عَنْهُ...»[2]
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ حقیقت عبودیت کیا ہے تو اپ نے فرمایا کہ تین چیز ہے :
ایک یہ کہ خداوند متعال نے چو کچھ بھی اسے دیا ہے خود کو اس کا مالک نہ سمجھے کیوں کہ غلام کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اسے مال خدا جانے اور اسے خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر خرچ کرے ۔
دوسرے یہ کہ بندہ خود کے لئے کوئی تدبیر نہ کرے ۔
تیسرے یہ کہ بندہ تمام وہ کام انجام دے جس کا پروردگار نے حکم دیا ہے اور ھر اس کام سے پرھیز کرے جس سے اس نے منع کیا ہے ۔
Add new comment