۱۹۸۰ءمیں امریکی سیاسی مفکر اور امریکہ کی خارجہ سیاسی کمیٹی کے رکن ہنری کسنجر ،جو پہلے سوویت یونین کے اثر ونفوذکو سب سے بڑا خطرہ جانتاتھا ،نے،اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مشرق وسطیٰ کے حوادث اور واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ،اپنے موقف میں تبدیلی لاکر اعلان کیا :اس علاقہ اور حقیقت میں مغرب اورامریکہ کے منافع کے لئے سب سے بڑا خطرہ شیعہ انتہا پسندی، اسلامی اصولی میلان اور ایران کا اسلامی انقلاب ہے ۔اور اس نے اعتراف کیا کہ ایرانی انقلاب کے براہ راست خطرہ نے سوویت یونین کے طولانی مدت خطرہ کو تحت الشعاع میں قرار دے دیاہے ۔[1]
اس نئی موجود مظہر سے مقابلہ کرنے کے لئے، کیسنجر نے تجویز پیش کی تھی کہ اسلامی انقلاب کو تمام اسلامی معاشروں میں پھیلنے اوراثرانداز ہونے سے روکنے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ ہم اہل سنت کے اندر منصوبہ بند اور امریکی پالیسی اور چاہت کے مطابق ایک حرکت ایجاد کر کے اسلامی انقلاب کا مقابلہ کریں ۔امریکی جاسوسی ایجنسی ،سی ،آئی ،اے ۔اسی وقت سے اس قسم کی حرکت ایجاد کرنے میں لگ گئی ۔اس نے پہلے کوشش کی کہ ایران کے اندر اہل سنت اقلیت سے استفادہ کرکے اپنا مقصد پوراکرے اور اس سلسلہ میں ‘‘شمس نامی ’’ایک ناراضی اور نظام مخالف شخص کے ذریعہ ‘‘شورائے مرکزی اہل سنت ’’کے نام پر ایک تنظیم تشکیل دی ، لیکن نظام کے ذمہ داروں کی ہوشیاری کے پیش نظر یہ تحریک کامیاب نہیں ہوئی ۔لیکن ملک سے باہر بالخصوص افغانستان میں یہ منصوبہ نسبتاًکامیاب رہا۔ اس طرح کہ ایک منظم پروگرام کے تحت اورکافی پیسہ خرچ کرکے پاکستان اور سعودی عربیہ کے دینی مدارس میں نوجوانوں کو ٹریننگ دے کر طالبان نام کی ایک تنظیم وجود میں لائی گئی ۔
افغانستان، ایران کے مشرق میں واقع ہے اور اس کی ایران کے ساتھ ایک طولانی سرحد ہے۔اس کے باشندے زبان وثقافت کے لحاظ سے ایرانی عوام سے مشترک ہیں۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی افغانستان، ملک کے خارجی سیاست کے ذمہ داروں کی فکروں کو مسلسل مشغول کر رکھا تھا ۔اس ملک میں متعدد قبائل اور قوموں کا وجود ،شدید ثقافتی اور اقتصادی پسماندگی ،منشیات کی کاشت اور اس کا ایران کے راستہ سے یورپ بھیجنا اورایران میں بیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرمن جملہ ان مسائل میں سے ہیں جو ایران کے لئے سخت مشکلات اور نظام کے ذمہ داروں کے لئے فکر وپریشانی کا سبب بنے ۔
افغانستان میں پے درپے فوجی بغاوتیں اور کمیو نسٹ حکو متوں کے برسر اقتدار آنے اورسرانجام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال سوویت یونین کی فوجوں کا اس ملک میں داخل ہوکر قبضہ کرنا اور افغانستان کی جہادی تنظیموں کا ایران کے تازہ برپا ہوئے اسلامی انقلاب سے تو قعات نے افغانستان کے مسئلہ کو رہبر ان انقلاب کی پالیسیوں کا مرکزبنا دیا ۔
حضرت امام خمینی ؒ اور ان کی پیروی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے افغا نستان کے بارے میں اپنی پالیسی کو دو بنیادوں پر قرار دیا :
اول یہ کہ افغانستان میں روس کے تجاوز کی مذمت کی جائے اورحملہ آور فوج کے خلاف افغانستان کی ملت کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جائے ۔
دوسرا یہ کہ جہادی گروہوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے پوری کوشش کی جائے ،اگر چہ اس کے نتائج کم ہی نکلے اور دوسری طرف سے ان جہادی گروہوں کے سوویت یونین کے خلاف لڑ نے کے لئے امریکہ کی طرف میلان پیدا کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے ۔
البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے مسائل کے بارے میں سوویت یونین کے علاوہ بین الاقوامی اور علاقائی ممالک، جیسے امریکہ،سعودی عرب اورپاکستان بھی سر گرم عمل تھے اور سر گرم رول اداکرتے تھے ۔اسلامی انقلاب کی پہلی دہائی کے دوران مذکورہ پالیسیوں کے مطابق افغانستان کے مسئلہ کے بارے میں درج ذیل اقدامات کئے گئے :
۱۔افغانستان کے مہاجروں کو قبول کرکے ان کے لئے خصوصی کیمپ اور روزگار فراہم کرنا ۔
۲۔حملہ آوراور متجاوز فوج کے ساتھ مقابلہ کرنے میں جہادی گروہوں کی بھر پور مالی،فوجی اور فکری مدد کرنا ۔
۳۔جہادی گروہوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔
۴۔افغانستان سے ایران کے راستے دوسرے ملکوں کو لے جانے والی منشیات کا زبردست مقابلہ کرنا ۔
یہ پالیسی افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے ۱۹۸۹ء میں نکل جانے تک جاری تھی۔ سوویت یونین کا زوال اور افغانستان سے روسی فوجوں کا نکلنا ملت افغانستان کے لئے ایک عظیم کامیابی ہوسکتی تھی اور اسے بیرونی طاقتوں کے تسلط سے آزاد کر سکتی تھی ،لیکن افسوس کہ قبیلوں ،قومی اور مذہبی اختلافات نئے اندرونی بحران پیدا ہونے کا سبب بنے ،جنہوں نے نہ صرف اس ملت کے لئے امن وسلامتی پیدا نہ کی بلکہ مغربی طاقتوں کے لئے مداخلت کا موقع بھی فراہم کیا اور ان کے ہمراہ ‘‘طالبان’’نام کی ایک نئی موجود بھی وجود میں آگئی۔
کہا جاتاہے کہ‘‘طالبان’’یادینی طلبہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان اور سعودی عربیہ میں دینی اورفوجی ٹریننگ حاصل کی ہے اور اکثر پشتو قبیلہ سے منتخب کئے گئے ہیں جو افغانستان کے بڑے قبائل میں سے ہے ۔اس قبیلہ کا پاکستان میں بھی قابل توجہ اثرورسوخ ہے، یہاں تک کہ یہ لوگ پشتونستان کی حکومت کی تشکیل اور پاکستان کے ایک حصہ کو آزاد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
اس گروہ نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے باقی بچے جنرلوں کی حمایت اورسعودی عربیہ اور امریکہ کی مالی مدد اور پاکستان کی اسٹرٹیجگ پشت پناہی سے افغانستان کے اکثر علاقوں پر تسلط جمانے میں کامیابی حاصل کی ۔۱۹۹۷ء میں مزار شریف میں ایرانی سفارت کاروں کو بے د ردی سے قتل عام کرنے کے نتیجہ میں طالبان نے ایران سے براہ راست مقابلہ کا خطرہ مول لیا ۔یہ حادثہ سرانجام اسلامی جمہوریہ ایران کا پاکستان سے لڑنے کا سبب بن سکتا تھا ،جس کے بہانہ امریکہ کی مداخلت کا احتمال تھا ،لیکن نظام کے عہدداروں کی عاقلانہ تدبیر سے یہ خطرہ ٹل گیا ۔افغانستان کے اکثرعلاقوں پر اپنا تسلط جمانے کے باوجود طالبان مندرجہ ذیل دووجوہات کی بناپر بین الاقوامی معا شرہ میں اپنی پوزیشن کو ایک حکومت کے عنوان سے قبول نہ کراسکے :
۱۔اسلام کے بارے میں طالبان کا تنگ نظری پر مشتمل عقیدہ آج کل کی دنیا کے مسلمانوں کے لئے نامانوس اور ناقابل قبول ہے۔ چونکہ اس گروہ کے قائدین کے طریقہ کار اور پالیسی میں تبدیلی آنے کا احتمال کم ہے ،اس لئے بعید ہے کی اسے مستقبل قریب میں بھی باضابط طور پر قبول کیا جائے ۔
۲۔پاکستان کے علاوہ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک من جملہ ایران ،ترکمنستان، ازبکستان ،تاجکستان اور چین نے بھی اس حکومت کی بھر پور مخالفت کی اور طالبان کے مخالفوں کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا ،اس کے علاوہ خود پاکستان بھی افغانستان میں پختونوں کی حکومت تشکیل پاکر مستحکم ہو نے کے بارے میں سخت فکر مند تھا ۔[2]
یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے بارے میں اسلامی انقلاب نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں اور کچھ ناکامیوں سے دوچار ہوا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی یہ تھی کہ افغانستان میں امریکی حکومت کے اثرو نفوذ کو وسعت ملنے اور وہاں پر ایران کی مشرقی سر حد کو ناامن کرنے والی کسی حکومت کی تشکیل پانے میں رکاوٹ پیدا کی ۔اس کے باوجود اسلامی انقلاب جہادی گروہوں میں اتفاق و یکجہتی ایجاد کر کے افغانستان کے محروم عوام کی مرضی کے مطابق اسلامی نظام کی تشکیل میں ناکام رہا ۔
آخر پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہو گااور اس ملک کے سلسلہ میں اسلامی انقلاب کا کیا موقف ہو گا ؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا زیادہ تر دارو مدار دنیا میں تشکیل پانے والے مستقبل کی نئی بلاک بندی اور کئی قطبی نظام پر ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران،روس،چین اور ہندو ستان کے در میان روابط کا پھیلاؤبالقوہ طور پر امریکہ اور مغربی بلاک کے مقا بلہ میں ایک نئے بلاک کو جنم دے سکتا ہے،اس کے نتیجہ میں افغانستان کا مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مجلہ‘‘الدستور’’طبع انگلستان ،مورخ ۵جنوری ۱۹۸۲ء
[2] اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے یوری گانگو فسکی کامقالہ ‘‘طالبان :جدید قدرت ’’ملاحظ ہو جو مجلہ ‘‘مطالعات ایشیای مرکزی و قفقاز ’’جلد ۶،دورہ سوم شمارہ ۱۷،۱۹۹۷ء ،ص۱۴۳۔۱۴۸
Add new comment