چکیده: انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت جس کا سرچشمہ انقلاب کا الہی ہونا ہے ، دین اور علما ئے دین کا انقلاب کی رہبری اور ہدایت کرنا ہے۔ دوسرے سارے انقلاب ایک طرح سے دین و مذہب کے مقابلے میں تھے لیکن یہ انقلاب علمائے دین کی ہدایت و رہبری سےآغاز ہوا او رانجام کو پہنچا ہے۔ان میں سرفہرست امام خمینی رح تھے جو بلند ترین دینی منصب یعنی مرجعیت پر فائز تھے۔
تالیف: سید امیر حسین کرامرانی راد
انقلاب اسلامی ایران جو ۱۳۵۷ھ ش (۱۹۷۹ء )میں حضرت امام خمینی رح کی رہبری میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اکثر صاحبان نظر، دانشوروں اور بالخصوص اس کے اصلی معمار کی نظر میں کچه بنیادی خصوصیات اور امتیازات کا حامل ہے جو اس کو دوسرے انقلابات سے ممتاز کرتے ہیں ، ہم اس مقالے میں بعض اہم خصوصیات کا ذکر کررہے ہیں:
دینی رجحان
انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت اس کا خدا محور ہونا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی قوانین کے ۵۶ ویں بند میں ہم ملاحظہ کرتےہیں: عالم اور انسان پر حاکمیت مطلق ، خدا کی ہےاور اسی نے انسان کو اس کی اجتماعی تقدیر پر حاکم بنایا ہے۔
اسلامی انقلاب ایران بانی کے وصیت نامہ میں اس سلسلے میں اس طرح آیا ہے: ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم انقلاب نے جو ستمگروں اور جہاں خواروں کے ہاتھ کو ایران سے دور کردیا ہے وہ الہی تائیدات کے زیر سایہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اگر خداوند متعال کی تائید اور عنایت نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ایک(۳۶ میلین)تین کروڑ ۶۰ لاکھ پر مشتمل آبادی اسلام اور روحانیت مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود بالخصوص اس آخری صدی میں ایک ساتھ قیام کرے اور پورے ملک میں ایک رائے ہو کر حیرت انگیزاور معجزہ آساقربانی اور اللہ اکبر کے نعرے کے سہارے خارجی اور داخلی طاقتوں کو بے دخل کردے۔ بلا تردید اس مظلوم دبی کچلی ملت کے لئے خداوند منان کی جانب سے یہ ایک تحفہ اور غیبی ہدیہ ہے[1]۔
انقلاب کا عوامی ہونا
دوسرے انقلابات میں بھی انقلاب کا عوامی ہونا دیکھائی دیتا ہے لیکن انقلاب اسلامی ایران میں یہ صفت زیادہ، آشکار اور نمایاں ہے۔ اس انقلاب میں زیادہ تر لوگ میدان میں آئے اور شاہی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی نظام کی برقراری کا مطالبہ کیا۔ فوجی، کاریگر، مزدور، کسان، علماء و طلاب، اسٹوڈنٹس، معلم، غرض ملک کے ہر طبقہ کے لوگ اس انقلاب میں حصہ دار اور شریک تھے۔ انقلاب کے عوامی ہونے کی یہ صفت بہت ہی نمایاں ہے۔ دوسرے انقلابات میں زیادہ تر فوجیوں اور پارٹیوں کا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے مسلحانہ جنگ کرکے کام کو تمام کیا ہے اور عوام نے ان کی حمایت کی ہےلیکن ہمارے انقلاب میں سارے لوگ شریک رہے ہیں اور پورے ملک میں پوری قوت کے ساتھ رضا شاہ پہلوی کا مقابلہ کیا۔
رہبری و مرجعیت
انقلاب اسلامی ایران کی ایک اہم خصوصیت جس کا سرچشمہ انقلاب کا الہی ہونا ہے ، دین اور علما ئے دین کا انقلاب کی رہبری اور ہدایت کرنا ہے۔ دوسرے سارے انقلاب ایک طرح سے دین و مذہب کے مقابلے میں تھے لیکن یہ انقلاب علمائے دین کی ہدایت و رہبری سےآغاز ہوا او رانجام کو پہنچا ہے۔ان میں سرفہرست امام خمینی رح تھے جو بلند ترین دینی منصب یعنی مرجعیت پر فائز تھے۔
آپ کی رہبری نمایاں خصوصیات کی حامل تھی جن میں سے بعض کو ہم ہدیۂ قارئین کررہےہیں:
الف: امام خمینی رح جو ایک دینی مرجع ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع اور زبردست عوامی حمایت کے بھی مالک تھے۔
ب: آپ نے ۱۵/جون کے قیام کی بنیاد رکھ کر اور اس جانسوز حادثہ میں اپنی جلاوطنی کے زمانہ میں بے نظیر مدیریت اور شجاعت کا مظاہرہ کرکے اپنی سیاسی اور انقلابی رہبری کا لوہا منوایا۔
ج: امام ؒنے انقلاب کا نقشہ اور منصوبہ بھی بنایا اور اس کے بانی، مدیر اور منفذ بھی تھے۔
اصلیت
انقلاب اسلامی ایران کی اصلیت کے دو پہلو ہیں: نظری اور عملی۔ نظری اور فکری پہلو میںِ اس انقلاب کے اہداف و مقاصد اور افکار و نظریات بیرونی نہ تھے خود ایرانی تاریخ اور ایرانیوں کی پیداوار تھے۔ اسلام اور عقائد اسلامی کو ایرانیوں نے چودہ سو برس پہلے قبول کیا تھا اور اس مدت میں اسلام اور اسلامی عقائد ہماری قومیت اور تہذیب و ثقافت کے ایک اصلی اور اساسی عنصر میں تبدیل ہوگئے اور عملی پہلو میں ایرانی عوام اپنی قدرت و طاقت کے بل پر مغرب ومشرق یا ہمسایہ ممالک سے مالی اور اسلحوں کی مدد کے بغیر خدا کی ذات پر تکیہ کیا اور شمشیر پر خون کی کامیابی کا نعرہ لگاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
انقلاب کا اسلامی یعنی دینی ہونا
ایرانی انقلاب کی سب سے پہلی شرط اسلام ہے اور یہ اس کے طرز تفکر، ماہیت اور اغراض و مقاصد کی وجہ سے ہے۔ اس انقلاب کے رہبر ایک روحانی تھے جو مرجعیت دینی کے منصب پر تھے، اس کی تنظیم و ترتیب حوزہ علمیہ کے ہزار سالہ مرکزی ادارہ کے ذریعے ہوئی۔ عوام اور اس انقلاب کے بانیوں کا مقصد اسلام اور اسلامی قوانین کی حاکمیت اور اندرونی استبداد اور عالمی استبداد کے چنگل سے رہائی تھا۔ لہذا انقلاب ایران کے شرائط میں دین اسلام کے بنیادی کردار کی وجہ سے یہ انقلاب صفت ’’اسلامی ‘‘سے متصف ہوا۔
انقلاب کا عاشورائی مقصد
بہت سارے دانشوروں کی نگاہ میں جنہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب و علل پرنظریے پیش کئے ہیں ،مذہب سب سے قوی اور اصلی محرک اور سبب ہے جس نے انقلاب کی پیدائش اور اس کی کامیابی میں سب سے اہم رول ادا کیا ہے اور اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کس طرح برپا ہوا اس کے سلسلے میں رائج سیاسی ادبیات، نعروں، تقریروں اور رہبران تحریک کے بیانات کا مطالعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ مذہبی عناصر کے درمیان سے عاشورائی تہذیب اورامام حسین علیہ السلام کی نہضت و قیام کا اس انقلاب میں بڑا ہاتھ ہے۔ شہادت کی طلب، باطل سےہمیشہ ٹکراؤ، طاغوت سے پیکار، رضائے پروردگار کی پیروی، مصالح مسلمین، نظارت عمومی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی عاشورائی خصوصیات نے انقلاب اسلامی پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ عاشورائی تہذیب کے گوناگوں اثرات کو رہبر انقلاب کی فکر و عمل میں اور انقلابی افراد کے اہداف و مقاصد اور مقابلہ کی روش میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
مقاصد کو اجاگر کرنے والے نعرے
سادہ اور عوامی شکل میں ہر انقلاب کی حقیقت اور روش کا اندازہ اس کے نعروں سے ہوتا ہے اور نعرے بہت پہلے سے مقاصد سے روشناس کرواتے ہیں اور لوگوں کے مطالبات کو پہچنوانے اور منوانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ ایرانی عوام کے نعرے جو ان کے مطالبات کو بیان کرتے ہیں ذیل کے چار اصلی عناوین میں سمٹتے ہیں :
۱۔ استقلال
بلاتردیدظالم شاہی حکومت کے خلاف ہوئے مقابلوں میں لوگوں کا سب سے بنیادی نعرہ استقلال طلبی تھا۔ شاہ کے زمانے کا ایران علاقہ میں محافظ دستہ کے حکم میں امریکہ اور مغرب کے لئے کام کرتا تھا۔ قانون سرمایہ داری جو حکومت نے پیش کیا اور اس وقت کی قومی مجلس عاملہ نے اس کو تصویب کیا اس سے امریکی مشیر کاروں کو تحفظ ملا، تاکہ وہ کسی اضطراب اور وحشت کے بغیر ایران کے اندر عوام کی عمومی ثروت و اموال کو لوٹ سکیں۔ شاہ کی فوج بھی مکمل طورپرامریکی جنرل کے اختیار میں تھی اور اس کا اپنا کوئی ارادہ نہ تھا، استقلال اور آزادی ایرانی عوام کے لئے انقلاب اسلامی کا بہت بڑا تحفہ تھی، یہی وجہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کااساسی قانون اپنے متعدد بند میں واضح الفاظ میں استقلال پر زور دیتا ہے اور آج بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایران آزادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے اچھا ملک شمار ہوتا ہے۔
۲۔ آزادی
آخری دو صدیوں میں عوامی مطالبات کے زمرے میں ہمیشہ انقلابوں اور تحریکوں کے اہداف و مقاصد میں سرفہرست ایران کی استقلال طلبی اور آزادی خواہی رہی ہے۔ ظالم اور ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے اضطراب اور گھٹن کا ماحول بنا کر ایرانی قوم کو معمولی آزادی سے بھی محروم کردیا تھااور اس جگہ پرقید خانے راہ حق میں جہاد کرنے والوں سے بھرے ہوئے تھے اور کٹھ پتلی حکومتیں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہتی تھیں اور اس درمیان جس چیز کی کوئی اہمیت نہ تھی وہ قانون اور عوام کا کردارتھا ۔ شاہ کی ہر طرح سے حمایت کرنے کے لئے ایران میں ۲۸/مرداد ۱۳۳۲ه ش(۱۰/اگست ۱۹۵۳ء)کی بغاوت کے بعد امریکہ اور انگلینڈ کی ہدایت کے مطابق فوجی حکومت تشکیل پائی اوراس نے آزادی اور مجاہدین راہ حق کو کچلنے اور پسپا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ایسے گھٹن کے ماحول میں ایرانی عوام نے جمہوری اسلامی کے ہمراہ آزادی اور "استقلال" کا نعرہ بلند کیا ۔
۳۔ جمہوری اسلامی
شہید آیۃ اللہ مطہری کا خیال تھا کہ "جمہوری" حکومت کی شکل ہے اور اس کا اسلامی ہونا ادارہ ملک کے مفہوم کی نشاندہی کرتا ہے۔ جمہوری اسلامی نے ۹۸فیصد سے زیادہ ایرانی عوام کے ووٹ سےشاہی سلطنت کی جگہ لی ۔ امام خمینی رح نے اس دن کو عید کا دن اعلان کیا اور اپنے پیغام میں فرمایا: تمھیں وہ دن مبارک ہو جس دن تم نے جوانوں کی شہادت اور طاقت فرسا مصیبتوں کےبعد دیو صفت دشمن اور فرعون وقت کو زمیں بوس کردیا اور اس کو ایران سے فرار کرنے پر مجبور کردیا اور اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے بھاری اکثریت سے شاہی سلطنت کی جگہ اسلامی جمہوریہ کو بٹھا کر عدل الہی کی حکومت کا اعلان کیا، ایسی حکومت جس میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکها جائے گا اور عدل الہی کا سورج سب پر یکساں نورافشانی کرے گا اورقرآن و سنت کی باران رحمت سب پر یکساں نازل ہوگی[2]۔
’’نہ شرقی نہ غربی ‘‘ کا اہم نعرہ گویا ملک کےاندرونی امور میں غیروں کے تسلط کی نفی ہے ۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ جمہوری اسلامی کی نہ غربی نہ شرقی نعرہ کے ضمن میں خارجہ پالیسی مندرجہ ذیل چند اصول پر استوار ہے:
ہرطرح کے تسلط کی نفی: ہمہ جانبہ استقلال اور ملک کی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، سامراجی اغیار سے کوئی عہد و پیمان نہ کرنے کا عہد، جنگ نہ کرنے والی حکومتوں سے صلح آمیز روابط، ہر اس معاہدہ پر پابندی جو اغیار کے تسلط کا موجب ہو اور دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنار میں موجود مستکبرین کے مقابلے میں مستضعفین عالم کے حق طلب مقابلہ کی حمایت، ایسی سیاست اپنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں استعماری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور اغیار سے جنگ کرنے اور سامراج مخالف تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیفہ امام ، ج۲۱، ص۴۰۱.
[2] صحیفہ امام، ج۶، ص۴۵۳.
نوٹ: یہ مضمون اصل میں مذکورہ مقالہ نگار کی افکار کا نتیجہ ہے ، جو موسسہ تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینی ؒ کی جانب سے تلخیص شدہ مندرجہ ذیل سایٹ پر موجود ہے ، ہو بہو انھیں مطالب کو زبان اور ترجمہ کے لحاظ سے کچھ ترمیم کے ساتھ یہاں پر پیش کیا گیا ہے۔
Add new comment