ان کا نام نامی فاطمه تھا وہ ان بہادر اور جانباز لڑکیوں میں سے تھیں جنھیں تلوار چلانا اور نیزوں سے کھیلنا بہت اچھی طرح آتا تھا وہ جنگ وجہاد میں اپنی قوم کے جوانوں کے ہم پلہ تھیں
اپنے شیر دل بیٹے جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام اور ان کے بہادر بھائیوں کی تیراندازی اور شمشیر زنی کی پہلی مربیہ خود جناب ام البنین سلام اللہ علیہا تھیں
ایسا نہیں تھا کہ صرف آپ ہی شجاع وبہادر تھیں بلکہ آپ کا پورا قبیلہ شجاعت، ہمت اور جواں مردی میں زباں زد خاص وعام تھا؛
لیکن آپ کی جو خصوصیت آپ کو سب سے منفرد اور ممتاز بناتی تھی وہ آپ کی پردہ نشینی بے مثال حیا,پاکدامنی اور آپ کا خاص نسوانی حسن وجمال تھا جس نےآپ کی شیرانہ جرآت و ہمت اور بہادری کے ساتھ مل کر آپ کو ایک بے مثال اور آئیڈیل خاتون بنا دیا تھا.
بہت کم لوگ ہی آپ کا رشتہ مانگنے کی ہمت کرپارہے اور وہ بھی اس زمانے کے اشراف اور نمایاں صفات وکمالات کے حامل لیکن انھیں سوائے نہ کے اور کچھ سننے کو نہیں ملتا تھا ۔
جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ آخر آپ شادی کیوں نہیں کرتیں تو آپ جواب دیتیں کہ ان رشتہ دینے والوں میں کوئی جواں مرد نہیں ہے جس دن کوئی جواں مرد رشتہ لیکر آئے گا ہاں کردوں گی گا !
معاویہ آپ سے شادی کرنے کا بہت تمنائی تھا اور بار بار رشتہ بھیجتا تھا لیکن ہر بار سوائے رد اور انکار کے کچھ ہاتھ نہ لگتا اور رشتہ لے جانے والے منہ کی کھاکرذلت کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آجاتے ۔
یہاں تک کہ ایک رات آپ نے ایک خواب دیکھا
اس کی صبح جناب «عقیل»، مولائے کائنات کے بھائی اور آپ کے قاصد جو عرب کے سب سے بڑے نسب شناس تھے حضرت علی بن ابیطالب (علیه السلام)، کا رشتہ لیکر پہونچے ۔
یہ دیکھ کر جناب فاطمه کلابیہ کے پاکیزہ لبوں پر بے ساختی ایک معنی خیز مسکراہٹ آگئی آپ سمجھ گئیں کہ آپ کا خواب سچا تھا ۔
آپ خوشی اور مسرت کی بناپر شدت شوق میں گریہ کرنے لگیں آپ کی زبان پر یہ فقرے تھے :
خداکا شکر !
» میں کسی جوانمرد سے شادی کرنا چاہتی تھی جبکہ خدا نے میرے لئے جوانمردوں کے سیدوسردار کو بھیج دیا ۔ «
آپ نے اپنے ماں باپ کی مرضی اور خوشی کو بھی اپنی اس مسرت میں شامل کرکے فورا اس پاکیزہ رشتہ کے لئے ہاں کردی اور اس طرح آپ جانشین رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شریک حیات بن گئیں ۔
آپ کی سب سے نمایاں خصوصیت آپ کا ادب تھا ۔
آپ موقعہ و محل دیکھ کر گفتگو فرماتی تھیں ۔
آپ اپنے مرتبہ اور اس کی حدود سے پوری طرح آگاہ تھیں ۔
آپ کے کردار میں کسی طرح کی غلطی خطا اور گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
جاری ہے۔۔۔
انتخاب و ترجمہ
سید حمید الحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بمناسبت ۱۳ جمادیالثانی ۶۴ھ. وفات جناب ام البنین سلام اللہ علیہا
Add new comment