ننھےننھے بچے اپنے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ گھر میں آتے ہی دونوں نے ہم صدا ہو کر آواز دی اماں .. اماں ہم آگئے.. اماں ! ہمارے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتیں بچے ابھی اماں کو تلاش ہی کررہے تھے کہ گھر کی خادمہ قریب آئی دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھا دونوں کو پیار کیا اور اپنی آغوش میں لیکر صحن خانہ میں آئی اورکہا بچو! پہلے کھانا کھا لوپھر اماں سے بعد میں مل لینا ۔
بچوں نے یک صدا ہوکر کہا اسما! کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ ہم نے اپنی ماں کے بغیر کھانا کھایا ہو اسما ء جب تک ہم اماں کی آغوش میں نہ جائیں گے کھانا نہیں کھا سکتے اسماء جو ابتک ضبط کا باندھ باندھے بچوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ مل رہی تھی اب اپنے آپ کو نہ روک سکی اور رو پڑی ہچکیوں اور ٹپکتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسماء نے جو کچھ کہا اس کوسن کر بچوں نے بس یہی کہا اماں!!!
ننھے ننھے بچوں کی آواز ہوا کے دوش پر بلند ہو کر نہ جانے کتنی دور تک گئی... مگر ہاں پھر ایسا لگا جیسے ہر اک چیز گریہ کررہی ہو ۔ درودیوار رورہے ہوں آسمان آنسوبہا رہا ہو زمین ہچکیاں لے رہی ہو.. ہر طرف سے بس ایک ہی آواز آرہی تھی ماں! ماں! ماں! ایسا لگ رہا جیسے تھا ان بچوں کے ساتھ کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا ہوایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ان بچوں کی نہیں کائنات کی ماں اس دنیا سے چلی گئی ہو۔
اور ایسا ہی تھا... کچھ ایسا ہی توتھا کہ وہ ان بچوں ہی کی نہیں ہم سب کی ماں تھی ہماری خلقت اسی کے وجود کی رہین منت تھی بلکہ پوری کائنات اسی کے طفیل میں خلق کی گئی وہ محورِ کائنات تھی وہ نقطۂ پرکارحیات عالم تھی۔ وہ فاطمہ(سلام علیہا) تھی۔ حقیقی معنی میں وہ ایک ماں تھی۔
تحریر:سید نجیب الحسن زیدی
گذشتہ قسط یہان پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6498
Add new comment