منور ہلوری کی اطلاع کے مطابق، عزائے فاطمی کی مناسبت سے ھندوستان کے مختلف شھروں کی طرح ہلور سدھارتنگر کی فضا بھی سوگواررہی ، اس موقع پر ہلور تشریف لائے مولانا سید حیدر عباس رضوی لکھنؤ نے سید المرسلین حضرت محمد مصطفی کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زہرا کی زندگی پر روشنی ڈالی۔
مولانا نے بیان کیا کہ بنت پیغمبر کی عظمتوں کو درک کرنے کے لئے آیات قرآن مجید،فرمودات نبی اعظم و معصومین،افکار غیر شیعہ مفکرین نیز خود شہزادی کی سیرت طیبہ کے نقوش پڑھنا ضروری ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جناب مریم کے تقریبا بیس صفات کا تذکرہ ہے جو حضرت زہرا میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جناب مریم کے بیٹے کا نام عیسی ہے تو بنت پیغمبر کی اولاد میں امام حسن،امام حسین،جناب زینب اور جناب ام کلثوم ہیں۔دنیائے مسیحیت نے جناب مریم کے فرزند کی یادگار کے طور پر فقط صلیب رکھا جبکہ فرزند زہرا امام حسین علیہ السلام کی یادگار عاشورا اور کربلا ہے جو آج بھی پیروان ولایت کو جذبہ و حوصلہ عطا کرتا ہے کہ وقت کے ظالم و جابر ہم سے دور رہیں ۔ بقول شاعر:
کربلا دہرائی جا سکتی ہے پھر
ظلم مت سمجھے زمانہ اور ہے
فرمودات نبوی میں دسیوں ایسی احادیث ہیں جو شیعہ سنی دونوں کے معتبر منابع میں موجود ہیں جن میں بخاری،شبلنجی اور جو ینی شافعی کی کتابیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس نے اضافہ کیا کہ آل رسول علیہم السلام کے حضرت زہرائے مرضیہ کے سلسلہ میں اگر فرامین نہ ہوتے تو ہم بی بی دو عالم کے فضائل درک نہیں کر سکتے تھے۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی جدہ ماجدہ کے بارے میں بیان فرمایا کسی ایک نبی کی نبوت اس وقت تک مکمل نہیں ہوئی جب تک اس نے جناب زہرا کی فضیلت کا اقرار اور آپ سے محبت کا اظہار نہ کیا ہو۔
انہوں نے غیر شیعہ مفکرین میں لبنانی مسیحی دانشور سلیمان کتانی کی کتاب فی وترغمد کا تذکرہ کرتے ہوئے عزاداروں سے خطاب کے دوران بیان کیا کہ اس مسیحی نے خاتون جنت کی ہمت و جرائت کا قصیدہ پڑھا ہے کہ فاطمہ زہرا نے اکیلے ہی اپنے دور کے دشمنوں سے مقابلہ کیا۔
مولانا نے مزید کہا کہ شبلنجی شافعی جیسے بزرگ اہلسنت عالم کی کتاب نور الابصار فی مناقب آل الاطہار کا تذکرہ کرتے ہوئے خطیب مجلس نے اس میں بیان ہونے والی حدیث نبوی پر روشنی ڈالی جہاں پیغمبر خدا نے اپنی بیٹی کو دنیا والوں کے سامنے متعارف کرایا اور صاف اعلان کیا کہ جس نے میری بیٹی کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پینچائی۔اور جسنے مجھے تکلیف دی اس نے خدا کو تکلیف دی۔
اس برجستہ خطیب نے اپنے مخصوص انداز بیان کو جاری رکھتے ہوئے ابن ابی الحدید معتزلی کا تذکرہ کیا جنہوں نے اپنے استاد علی ابن فارقی سے سوال کیا تھا کہ خلیفہ اول نے اگر بنت پیغمبر کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد ان کی عظمت کا اقرار کیا تو فدک واپس کیوں نہ کیا اس کا جواب ملا کہ اگر فدک واپس کر دیتے تو خلافت کا مطالبہ ہوتا اور اسے بھی واپس کرنا ہوتا۔
قابل ذکر ہے کہ ان مجالس عزا میں خطبہ فدک کا مفصل تذکرہ ہوا کہ کس طرح بنت پیغمبر خدا نے توحید،رسالت اور فلسفہ احکام کے بعد اپنے حق کا مطالبہ کیا۔
مجالس کا آغاز قاری فضل عباس نے تلاوت کے ذریعہ کیا بعدہ جناب ڈاکٹر عمار ہلوری، لکی ہلوری، معراج ہلوری، فرحان ہلوری نے پیش خوانی کی۔
پیروان ولایت ٹیم کے سرگرم رکن احسن سجاد نے پردرد آواز میں نوحہ پڑھا جسے سن کر عزاداروں میں شور گریہ بلند ہوا۔
ان مجالس میں نظامت کے فرائض مشترکہ طور پر عظیم ہلوری اور حیدر ہلوری نے انجام دئیے۔
فاطمی مجالس کی آخری مجلس سے ذاکر اہلبیت جناب جمال حیدر صاحب خطاب فرمائی جس کے بعد جلوس عزا امام بارگاہ وقف شاہ عالمگیر ثانی سے روضہ جنت البقیع تک گیا۔
مجالس کے آرہلور یوٹیوب چینل سے براہ راست نشر ہو رہی تھیں۔
Add new comment