سن 1948ء میں غاصب صہیونیت کی طرف سے اعلان وجود کئے جانے بعد بعض عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا تو سعودیہ کے حاکم وقت عبد العزیز نے مختصر تعداد میں اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ فوجی مصر بھیجنے پر اکتفا کیا اور اس جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد سب سے پہلے سعودی حکام نے فلسطین کے مسائل سے خود کو الگ تھلگ کرلیا اور فقط و فقط لفظی تنقید ہی کرتے رہے ۔
ابن سعود دنیا میں یہودیوں کے اثر و رسوخ سے متاثر اور معتقد ہونے کی وجہ سے اپنے زعم باطل فلسطین کی نجات کیلئے یہودیوں کے امنیت تامین کرنے میں کوشاں رہے، وہ معتقد تھے کہ علاقہ کے مسائل کا حل برطانیہ اور امریکا کے ہاتھوں میں ہے اور ان دو ممالک کو نہ فقط فلسطینیوں کے مطالبہ قبول نہ تھے بلکہ یہودیوں کی شرانگیزیاں اور تشدد سے بھی چشم پوشی کرتے تھے ، کلی طور ان کی عمومی پالیسی خطے کی امنیت اور جنگ و اختلاف میں عدم مشارکت نیز خود کو تنازعات سے دور رکھنا تھی ۔
سن 1981 ء میں ملک فہد نے اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں فلسطین کے بحران کے خاتمہ کیلئے اٹھ بندوں اور فصلوں پر مشتمل تجازویز پیش کی کہ اس کے ساتویں بند میں خطے میں غاصب صہیونی حکومت کی پر امن موجودگی کو تسلیم کیا گیا تھا ۔
سن 2002 ء میں سعودیہ کے ولی عہد ملک عبد الله کہ جو بعد میں اس ملک کے تخت شہنشاہیت پر بیٹھے انہوں نے سن 1967ء کے سرحدی حدود سے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے اور عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جانے کی تجویز پیش کی اور خود بھی غاصب صہیونی حکومت کے وجود کو قبول کرلیا ۔
آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جب ہم فلسطین کے حوالے سے ال سعود کے ماضی اور اس کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ سعودیہ نے فلسطینی عوام کی آزادی کی خواہش کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اس حوالہ سے ملک سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی موجودہ حکومت کی جانب سے صدی کے معاملہ کی حمایت اور بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صہیونیت کو تسلیم کئے جانے اور اس سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جانے کے اسباب وعلل واضح و روشن ہیں ، یہ نظریہ اور نقطہ نظر وہی ال سعود کی بنیادی سیاست ہے جس میں ذاتی اورعالمی طاقتوں کے منافع کو ملت اسلامیہ خصوصا فلسطین کے منافع اور نقصانات پر مقدم رکھا گیا ہے ۔
گذشتہ قسطیں یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6404
http://www.ur.btid.org/node/6406
http://www.ur.btid.org/node/6413
http://www.ur.btid.org/node/6451
Add new comment