مقام خلافت کی اہمیت اور خاص طور پر مقام و منزلت خلیفہ ، وہ مہم ترین مفاہیم ہیں کہ جو حضرت زہرا (س) کے کلام میں ذکر کیے گئے ہیں اور واضح ہے کہ رسول خدا (ص) کی جانشینی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے کہ جسے ان حضرت کے اہل بیت (ع) نے متعدد مقامات پر بیان کیا اور ان احادیث سے استدلال کیا ہے، حتی جب عمر نے ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا تو اسی کے حکم پر عمر نے جب حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کیا تو بی بی ان حملہ آوروں کے سامنے بھی امیر المؤمنین علی (ع) کے حق خلافت پر استدلال کیا تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے جن روایات سے مولائے کائنات (ع) کی ولایت و خلافت پر استدلال فرمایا ہے، ان میں سے ایک حدیث غدیر ہے۔ عمر کی سربراہی میں حکومت کے کچھ چمچوں کا جناب سیدہ (س) کے گھر پر حملہ کرنے کے بعد، بی بی زہرا(س) نے دروازے کے پیچھے آ کر ان حملہ آوروں کو مخاطب کرتے ہوئے ، حدیث غدیر کی طرف اشارہ فرمایا اور اس حدیث سے موجودہ غاصب حکومت کے باطل ہونے پر مہر ثبت کر دی:
’’وَ خَرَجَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله إِلَيْهِمْ فَوَقَفَتْ خَلَفَ الْبَابِ ثُمَّ قَالَتْ لَا عَهْدَ لِي بِقَوْمٍ أَسْوَأَ مَحْضَراً مِنْكُمْ تَرَكْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه و آله جَنَازَةً بَيْنَ أَيْدِينَا وَ قَطَعْتُمْ أَمْرَكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَ لَمْ تُؤَمِّرُونَا وَ لَمْ تَرَوْا لَنَا حَقّاً كَأَنَّكُمْ لَمْ تَعْلَمُوا مَا قَالَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ وَ اللَّهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ يَوْمَئِذٍ الْوَلَاءَ لِيَقْطَعَ مِنْكُمْ بِذَلِكَ مِنْهَا الرَّجَاءَ وَ لَكِنَّكُمْ قَطَعْتُمُ الْأَسْبَابَ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ نَبِيِّكُم‘‘ پھر حضرت فاطمہ بنت رسول خدا دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا: کوئی قوم بھی تم لوگوں سے زیادہ بد تر نہیں ہے، رسول خدا کے جسد مبارک کو ہمارے پاس چھوڑ کر تم لوگ اپنے کام (تعیین خلیفہ) میں مصروف ہو گئے ہو، تم لوگوں نے نہ ہم سے کوئی مشورہ کیا ہے اور نہ ہی ہمارے لیے کسی حق کے قائل ہوئے ہو، گویا تمہیں غدیر کے دن رسول خدا کے خطاب کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں تھی، خدا کی قسم ان حضرت نے اسی دن امر ولایت و خلافت کو ایسے مستحکم کر دیا تھا کہ کسی کے بھی ولایت میں لالچ کرنے اور امید رکھنے کی گنجائش کو ختم کر دیا تھا، لیکن تم نے کسی قسم کا کوئی خیال نہیں کیا اور اپنے پیغمبر سے اپنے ہر رابطے کو قطع کر لیا ہے۔(۱)
اسی طرح شيخ صدوق نے بھی حضرت زہرا (س) کے حدیث غدیر کے ساتھ احتجاج کرنے کو بہت اہم قرار دیا ہے اور اس نے اشارہ کیا ہے کہ بی بی نے انصار کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے حدیث غدیر سے استدلال کیا تھا:
’’قال مصنف هذا الكتاب رضي الله عنه: إن يوم غدير خم لم يدع لاحد عذرا هكذا قالت سيدة النسوان فاطمة عليها السلام لما منعت فدك وخاطبت الأنصار ، فقالوا: يا بنت محمد لو سمعنا هذا الكلام منك قبل بيعتنا لأبي بكر ما عدلنا بعلي أحدا، فقالت: وهل ترك أبي يوم غدير خم لاحد عذرا‘‘
اس کتاب کے مصنف فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی عذر و بہانہ نہیں چھوڑا تھا اور جناب سیدہ کو جب فدک سے محروم کیا گیا تو جب بی بی زہرا(س) نے اسی بات کو انصار کو بتایا تو انھوں نے کہا:’’ اے بنت رسول ! اگر ہم ان باتوں کو ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے سنتے تو ہرگز علی سے منہ نہ موڑتے‘‘ جس پر بی بی زہرا(س) نے جوابا فرمایا:’’ کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی بہانہ چھوڑا ہے ؟‘‘(۲)
ابن عقدہ نے بھی اپنی کتاب’’الولایۃ‘‘ میں محمد ابن اسید سے جناب سیدہ کے استدلال کو یوں نقل کیا ہے: جناب سیدہ (س) سے پوچھا گیا : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی رحلت سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کچھ فرمایا تھا: تو جناب سیدہ جوابا فرمایانے غدیر خم سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:’’واعجباه أنسيتم يوم غدير خم‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ تم لوگوں نے غدیر کو بھولا دیا ہے۔(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)الطبرسي، أحمد بن علي بن أبي طالب (المتوفي 548ق)، الإحتجاج على أهل اللجاج، ص105، تحقيق : تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر : دار النعمان للطباعة والنشر - النجف الأشرف۔
(۲)الصدوق، محمد بن علي بن الحسين (المتوفى381ق)، الخصال، ج1، ص173، تحقيق، تصحيح وتعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية في قم المقدسة۔
(۳) اثبات الہداۃ، ج۲، ص۱۱۲ \احقاق الحق ج۱۶، ص۲۸۲
Add new comment