غدیر خم ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے مگر بعض نادان اور حقیقت سے نا آشنا لوگ اپنے عقیدہ اور مذہب کو تقویت دینے کے لئے غدیر خم کی اصل صورت اور پیام کو خراب کرنے کے درپی رہتے ہیں، اسکے لئے ایسی دلیلوں سے متمسک ہوجاتے ہیں جس کی کوئی اصل و اساس نہیں ہوتی۔
آج کل سوشل میڈیا میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کچھ بے بنیاد سوال اٹھا کر لوگوں کو غدیر خم کی حقیقت سے دور کر رہے ہیں،جیسا کہ آج کل یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ’’اگر حدیث غدیر امامت اور خلافت پر دلالت کرتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے اس حدیث کا سہارا کیوں نہیں لیا، حتی ایک روایت بھی نہج البلاغہ میں نہیں ملتی کہ آپ نے حدیث غدیر سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا ہو، اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بہتر جانتے تھے کہ حدیث غدیرولایت و امامت کے بارے میں نہیں تھی اسی لیے آپ نے کبھی حدیث غدیر کا سہارا لیکر احتجاج نہیں کیا، اسی بناءپر اہل سنت کا دعوا ہے کہ ’’حدیث غدیر‘‘ دوستی اور نصرت کے معنا میں ہے۔
ہم خلاصۃ اہل سنت کا نظریہ اور شبہ آپ قارئین کی خدمت میں بیان کردیا ہے اب اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
حضرت علی علیہ السلام نے رسول اسلام کی زندگی میں بھی اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والے میں ذکر کیا جاچکا (مزید مطالعہ کے لئے لینک موجود ہے) اسکے علاوہ آپ نے رسول اسلام کی وفات کے بعد بھی مختلف مقامات غدیر کا اور اپنی خلافت کا ذکر فرمایا ہے جیسا کہ شیخ یعقوب کلینی رحمۃ اللہ علیہ مولف کتاب کافی نے آپ سے وارد ایک بڑی روایت کواپنی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
روایت کچھ اس طرح سے ہے : سلمان ابوبکر کے خلیفہ بننے یعنی حضرت علی کی خلافت کے غصب ہونے کے فورا بعد مولائے کائنات کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ سے باخبر کیا ، امام علی علیہ السلام نے فورا حدیث غدیر سے استناد کرتے ہو ئے واضح کیا کہ آپ خداوند عالم کی جانب سے اس منصب کے لئے منتخب ہوئے تھےاور وہی ولایت جو رسول کی لوگوں پر تھی آپ کی بھی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بات کو ادامہ دیتے ہوئے فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے غدیرکے دن یہ خبر دی تھی کہ شیطان اور کچھ نام نہاد اصحاب صرف اس وجہ سے حیران و پریشان تھے کہ میں تمہیں خدا کے حکم سے منصب امامت و خلافت کے لئے منتخب کرنے والا ہوں۔اس کے باوجود کہ کچھ لوگ حیران و پریشان تھے پیغمبر اسلام کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ میں تمام لوگوں کے نفس پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں کیونکہ میں ان کا ولی اور مولا ہوں، اور جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں، تمام حاضرین میرا یہ پیغام غائبین تک پہونچا دیں، پیغمبر اسلام کے اس اعلان کے بعد شیطان رسول اسلام کے پاس آیا اور مایوسانہ انداز میں کہنے لگا ، بشارت ہو اس امت کو جو رحمت الہی سے قریب اور گناہوں سے محفوظ ہوگئی، کیونکہ آپ نے ایک عظیم رہنما اپنے جیسا لوگوں کے لئے منتخب کر کے جا رہے ہیں، یہی وہ وقت تھا جب شیطان رجیم سب سے زیادہ غمگین اور مایوس ہوا تھا۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے خبر دی تھی، جیسے ہی میرا انتقال ہوگا یہ امت ایک دوسرے سے لڑنے لگے گی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوکر ابوبکر سے بیعت کرے گی ، پھر وہ مسجد میں جائیں گے اور سب سے پہلے میرے منبر پر جاکر ابوبکر کی بیعت کرے گا وہ شیطان ہوگا، شیطان ایک زاہدانہ اور عابدانہ شکل میں مسجد میں آئے گا اور لوگوں اسکی بیعت کے لئے اکسائے گا اس کے بعد مسجد سے باہر آکے اپنے ساتھیوں سے کہے گا کہ تم لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب امتی کو کوئی نہیں بہکا سکتا دیکھو میں نے انہیں کیسے بہکایا ہے اور ایسے بہکایا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی ساری باتوں کو بھولا بیٹھے ہیں۔ (1)
....................................................
حواله جات
یعقوب کلینی(م329)، کافی، بیروت، منشورات الفجر، چاپ اول، 2007م-1428هـ، ج8، ص182-183، ش541؛ و تهران، چاپ اسلامیه، چاپ دوم، 1362هـ.ش، ج8، ص343.
Add new comment