امامت اور خلافت کے شرائط میں فرق، فریقین کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: شیعہ اور اہلسنت کا خلافت اور امام کی ضرورت پر اتفاق ہے، اختلاف معیاروں میں ہے، وہ معیار جن کی بنیاد پر کوئی شخص، امام اور خلیفہ بنتا ہے، جس مذہب نے ان اصول کا خیال رکھتے ہوئے امام کا انتخاب کیا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہے اور جس نے ان اصول کو نظرانداز کردیا، وہ گمراہی میں ہے اور کامیابی کی منزل تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔

امامت اور خلافت کے شرائط میں فرق، فریقین کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امامت کی ضرورت پر امت مسلمہ کا اتفاق: تمام امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد امامت کا ہونا واجب اور ضروری ہے۔ یہ بات بہت سارے شیعہ اور اہلسنّت علماء کے بیانات سے واضح ہوتی ہے، مثلاً اہلسنّت کے علامہ، حافظ ابن حزم اندلسی نے کتاب الفِصَل في الأهواءِ والمِلَلِ والنِّحَل‌میں لکھا ہے: "اتَّفَقَ جَميعُ فِرَقِ اهْلِ السُّنَّةِ وَجَميعُ فِرَقِ الشّيعَةِ وَجَميعُ الْمُرْجِئَةِ وَجَميعُ الْخَوارِجِ عَلى وُجُوبِ الإِمامَةِ" [1]، "اہلسنّت کے سب فرقے، شیعہ کے تمام فرقے، سب مرجئہ اور سب خوارج کا امامت کے واجب ہونے پر اتفاق ہے"۔ لہذا اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد کوئی امام ہونا چاہیے۔ نیز سب شیعہ اور اہلسنّت علماء نے امامت کی اس طرح تعریف کی ہے: " الْإِمامَةُ هِيَ الرِّئاسَةُ الْعامَّةُ في جَميعِ امُورِ الدّينِ وَالدُّنْيا نِيابَةً عَنْ رَسُولِ اللَّهِ‌ صَلّى اللَّه عليه وآله"[2]، "امامت، امت پر عام ریاست ہے دنیا اور دین کے سب کاموں میں، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نیابت میں"۔ بنابریں امام، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا نائب ہے تا کہ نبوت کی خالی جگہ بھر جائے اور امام، امت میں نبی کا کام کرسکے، صرف فرق یہ ہے کہ یہ امام، پیغمبر نہیں ہے۔ امت کے افراد کو چاہیے کہ سب کاموں میں اس کی اطاعت کریں۔

امام کے صفات کے سلسلہ میں شیعہ اور اہلسنّت کی نگاہ میں فرق: امامت، شیعہ کی نگاہ میں، خاتمیت کے دور میں نبوت کے راستہ کو جاری رکھنا ہے اور اہلسنّت کی نگاہ میں صرف ایک حکومتی نظریہ ہے۔ شیعہ اور اہلسنّت کی نگاہ میں پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) تین مقام کے حامل تھے:
۱۔ رسالت کی وحی کو لینا اور پہنچانا۔   ۲۔ وحی کو عصمت کے ساتھ اور خطا کے بغیر بیان کرنا۔    ۳۔ اسلامی معاشرے کی عظیم حکومت اور انتظامات
دونوں گروہوں کی نظر میں پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے وصال کے بعد، رسالت والی وحی (نہ کہ الہام اور تحدیث والی وحی) ہمیشہ کے لئے رک گئی اور کوئی شخص اس مقام کا عہدیدار نہیں بن سکتا۔ لیکن دو دیگر مقاموں کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ شیعہ کی نگاہ میں یہ دو مقام بھی اسی کے ذمہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ ایسے شخص کا کلام اور کردار عین دین اور حق ہے اور سب پر حجت ہے۔ بنابریں وہ لوگوں کا دینی مَرجَع ہے، یعنی تمام لوگوں کو اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس مرجع کی شان و عظمت اتنی بلند ہے کہ اس سے ہرگز کسی حال میں کوئی خطا اور غلطی سرزد نہیں ہوتی اور اس کے حکم کی سیاسی اور سماجی امور میں اطاعت اور فرمانبرداری کرنا واجب ہے۔[3] نیز شیعہ امامیہ، امام کو انسان کامل، باطنی ولایت کے مقام کا حامل، حجت زمان اور اللہ تعالیٰ کے فیوضات کا واسطہ سمجھتے ہیں، امامت کے اس رتبہ کو شیعہ کے عرفاء نے جو اقتباس کیا ہے، امامت کے مفہوم کا عروج ہے۔ شیعہ اور اہلسنّت کے درمیان امام کی صفات میں مختلف فرق ہیں، جیسا کہ شیعہ امام کے لئےعصمت اور  تمام حقائق، معارف اور شریعت کے احکام کا علم اور سب انسانی کمالات کے لحاظ سے تمام لوگوں سے افضل خاصکر امامت اور رہبری کے اہداف اور امور میں افضلیت کے معتقد ہیں۔[4] لیکن اہلسنّت نے اگرچہ امامت کو دین و دنیا کے امور میں ریاست کے معنی کیے ہیں اور عصمت و افضلیت کو نہ صرف شرط نہیں جانتے بلکہ ان میں سے بعض جیسے قاضی القضات ابویعلی اور سعدالدین تفتازانی نے حتی دینی اور عدالتی امور کا علم رکھنے کو جو دینی حکومت کے لئے کم سے کم ضروری شرطیں ہیں، شرط نہیں سمجھا اور فاسق و جاہل کی امامت کو واضح طور پر جائز سمجھا ہے۔[5] نیز اہلسنت کی نگاہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ امام اور خلیفہ کو اللہ تعالی منصوب کرے بلکہ جسے بھی لوگ خلیفہ بنادیں وہی خلیفہ اور امام ہے جبکہ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ میں آنحضرت جیسی صفات کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ تبھی تو آنحضرت کی مسند پر بیٹھنے والا آنحضرت کا خلیفہ اور جانشین کہلاتا ہوا، آپ کے اہداف و مقاصد کو جاری رکھ سکتا ہے، ورنہ لوگوں کے بنائے ہوئے خلیفہ کا دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہے، یہ کیوں خلیفہ بنا کوئی دوسرا شخص خلیفہ بن جاتا، جب وہ خود گمراہ ہے تو امت مسلمہ کو بھی یقیناً گمراہی کی طرف لے جائے گا، لہذا یہ خود کسی دوسرے کی خلافت، سرپرستی اور ہدایت کا محتاج ہے، بالفرض وہ لوگوں کی دنیا کو آباد کر بھی لے (جبکہ ایسا ہونا محال کے زیادہ قریب ہے) لیکن ان کو آخرت کی طرف ہدایت کون کرے گا؟ بالفرض کسی عالم دین کو مسند خلافت پر بیٹھا دیا جائے تو صحیح ہے؟ نہیں، کیونکہ لوگوں کے دنیاوی مسائل کو کون حل کرے گا اور اگر وہ علم سیاست کا ماہر نہ ہو تو دین اور دنیا دونوں میں دھوکہ کا شکار ہوجائے گا، اسی لیے تو شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام منصوص من اللہ ہونا چاہیے، یعنی امام اور خلیفہ بنانا، اللہ تعالی ہی کا کام ہے اور پروردگار عالم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے، کون مستقبل میں دنیا کی رنگینیوں کا رنگ پکڑ لے گا اور کون اللہ کی اطاعت کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن رہے گا اور دیگر کئی مسائل جنہیں اللہ تعالی ہی جانتا ہے اور لوگ بے خبر ہیں۔ لہذا خلیفہ کے تعین کا حق صرف اسی ذات کو حاصل ہے جس نے پہلے خلیفہ کا تقرر کرتے ہوئے فرمایا تھا: " وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ"[6]، " اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انہوں نے کہا کہ کیا اسے بنائے گاجو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو "۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت اتنا اہم اور عظیم مقام ہے کہ فرشتے بھی خلیفہ کے تقرر سے عاجز اور ناتوان ہیں، اور آخر میں اللہ نے فرمایا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"، اس کا مطلب کچھ ایسا بھی ہے جسے فرشتے نہیں جانتے تو خلیفہ کے تقرر سے عاجز ہیں تو ادنی انسان کسی کو خلافت کے لئے کیسے مقرر کرسکتا ہے، لہذا جسے لوگ مقرر کردیں، وہ انہی کا خلیفہ ہے، اللہ تعالی کا خلیفہ نہیں ہے، جس خدا نے انبیا کو مقرر کیا اور یکے بعد دیگرے بھیجتا رہا، وہی امام اور خلیفہ کو مقرر کرسکتا ہے اور یکے بعد دیگرے بھیج سکتا ہے اور جسے چاہے پردہ میں غائب رکھ کر محفوظ کرسکتا ہے۔

اختلاف کا پس منظر اور تجزیہ: شیعہ اور اہلسنّت کے درمیان رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد خلافت کے جن مسائل کے بارے میں اختلاف ہے وہ ایسے صفات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پائے جاتے تھے اور شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ صفات آنحضرت کے خلیفہ میں بھی پائے جانے چاہئیں سوائے نبوت کے، مگر اہلسنت، ان صفات کا ہونا ضروری نہیں سمجھتے، جبکہ واضح سی بات ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ عالی مقام اور عظیم صفات نہ ہوتیں تو ان کو لوگ، اللہ کا رسول نہ مانتے جیسا کہ آنحضرت کے زمانہ میں کتنے لوگوں نے نبوت کا جھوٹا اور من گھڑت دعوی کیا مگر ان کی گمراہی، جہالت اور جھوٹ لوگوں کے لئے واضح تھا، اسی لیے تو مسلمانوں نے ان کے دعوے کو قبول نہ کیا، اس سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ہر دعویدار، لوگوں کو آخرت کی کامیابی کے راستہ پر گامزن نہیں کرسکتا، لہذا لوگوں کو نہیں چاہیے کہ جس نے بھی مسند خلافت پر بیٹھنے کا دعوی اور حکومت پر قبضہ جمالیا، اسی کو خلیفہ تسلیم کرلیں، لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی کل تک تو انبیا کو بھیجتا رہا اور کیا اب سلسلہ نبوت کو اختتام پذیر کرنے کے بعد، مخلوق سے اپنا رابطہ ہی بند کردیا یا حقیقت یہ ہے کہ پروردگار نے رابطہ بند نہیں کیا اور مسلسل اپنا خلیفہ مقرر کرتا رہا ہے، مگر جیسے ہر زمانے میں گمراہ کرنے والے بھی آتے رہے اور انبیا سے لوگوں کو دور کرتے رہے، کبھی فرعون اور سامری نے حضرت موسی (علیہ السلام) سے لوگوں کو دور کیا، کبھی نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہدایت سے لوگوں کو محروم کردیا اور کبھی ابوجہل، ابولہب اور ابوسفیان جیسوں نے لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توحیدی تعلیمات سے دور کرتے ہوئے جہالت کے گڑھے میں جھونک دیا، اسی طرح ضلالت کا یہی سلسلہ آنحضرت کے بعد بھی جاری رہا کہ دین کے دشمنوں نے صرف اپنا روپ بدل کر آنحضرت کی شریعت، خلافت اور سنت میں بدعتیں پیدا کردیں اور ایسی منافقانہ سازشیں کیں جن کا ظاہر تو اسلام کے مطابق دکھائی دیتا تھا، لیکن حقیقت میں اسلام کی جڑیں کاٹنے کے درپے تھے، کیونکہ گمراہی سے مزید گمراہی کی طرف لے جانا آسان ہے، لیکن ہدایت کے بعد لوگوں کو گمراہ کرنا مشکل کام ہے، جس کے لئے دین کا دشمن منافقت کا لباس پہن کر میدان میں داخل ہوتا ہے۔ کیا مسلمان، قرآن کی کہانی اور تاریخی واقعہ بھول گیا تھا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو فرعون کی گمراہی، مظالم اور جھوٹی ربوبیت سے نجات دی، وہ ہدایت یافتہ ہوکر حضرت موسی (علیہ السلام) کی راہنمائی کے مطابق دریائے نیل سے گزر کر فرعون کے شر سے محفوظ ہوگئے، لیکن سامری جیسے گمراہ شخص نے ان کو گوسالہ کے ذریعے دوبارہ گمراہ کردیا۔ کیا امت مسلمہ کے لئے یہی لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ کہیں مسلمانوں سے بھی وہی واقعہ پیش نہ آیا ہو کہ پہلے کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے تھے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں گمراہی سے نجات دے کر اسلام کی طرف ہدایت کردی، مگر آنحضرت کے بعد مسلمان دوبارہ گمراہی کے منحوس تالاب میں غوطہ زن ہوگئے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کو بھول گئے کہ آنحضرت نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے فرمایا تھا:" ‌أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنّه لانَبیّ بَعدی"[7]، "آپ کے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے"۔

نتیجہ: امام کی ضرورت اور امامت کی تعریف پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے، مگر ان کا آپس میں جو اختلاف ہے، جس وجہ سے انہوں نے اپنی اپنی مرضی کے خلیفے اور امام کا انتخاب کیا ہے اور مختلف فرقوں میں انتشار کا شکار ہوئے ہیں، عقلی، نقلی، فطری اور تاریخی قانون کو بدلنے کی وجہ سے ہے۔ یعنی عقل، قرآن و حدیث، انسانی صحیح فطرت اور تاریخی درست قانون کے تحت امام اور خلیفہ کے لئے اللہ کی جانب سے منصوب ہونا، صاحب علم و عصمت، اور دوسرے لوگوں سے ہر لحاظ سے افضل ہونا ضروری ہے، لیکن جس فرقہ نے ان ضوابط کی مخالفت کی وہ گمراہی پر گامزن ہوگیا، کیونکہ یہ قواعد و ضوابط عقل سلیم رکھنے والے لوگوں کو تسلیم ہیں اور زمین پر عدل و انصاف اور امن و اتحاد کی بنیادیں یہی اصول ہیں اور ان اصول کے مخالفوں کو دیکھیے کہ وہ کیسے اسلام کے دشمنوں کے آلہ کار اور ہتھیار بن کر اسلام کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الفصل في الاهواء والملل والنحل: 4 / 72۔
[2] شرح المقاصد: 5/ 232. اگرچہ اہلسنت کے مآخذ میں رسول اللہ (ص) کے نام کے بعد درود و صلوات ناقص (ابتر) ذکر ہوئی ہے، مگر ہم نے یہاں آںحضرت کے فرمان کے مطابق مکمل صلوات ذکر کی ہے۔
[3]مزید وضاحت کے لئے دیکھیے: محمدتقى مصباح يزدى، راهنماشناسى، ص 408- 410۔
[4] مزید معلومات کے لئے دیکھیے: على ربانى گلپايگانى، امامت در بينش اسلامى، ص 212- 187۔
[5] ابويعلى محمدبن الحسين الفراء المنيع، الاحكام السلطانيه، ص 20؛ تفتازانى، شرح المقاصد، ج 5، ص 233۔
[6] سورہ بقرہ، آیت 30۔
[7] صحیح ترمذی، ج 5، ص 641، ح 3730۔ مسند احمد بن حنبل، ج1، ص277۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48