گناہ کی قباحت کے ختم ہونے کی روک تھام

Thu, 07/30/2020 - 11:38

خلاصہ: اگر معاشرے میں گناہ کی روک تھام کی جائے تو گناہ کی قباحت ختم نہیں ہوگی، لہذا گناہ کو معاشرے میں برا سمجھا جائے گا۔

 گناہ کی قباحت کے ختم ہونے کی روک تھام

معاشرے میں گناہ کی قباحت کے ختم ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کی برائی محسوس نہ ہو اور لوگوں کے لئے عام سا کام بن جائے۔ دین اسلام کی اہم ترین تاکیدوں میں سے ایک تاکید یہ ہے کہ گناہ کی قباحت کے ختم ہونے کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنی چاہیے تاکہ گناہ کی برائی ہمیشہ باقی رہے اور معاشرہ اس سے منع کرتا رہے، کیونکہ لوگوں کی نظر میں گناہ کی قباحت کا باقی رہنا اور معاشرے کے ظاہر کو گناہوں سے بچانا ہی برائیوں کے سامنے بڑی رکاوٹ ہے۔
جب معاشرے میں بےحیائی اور فحاشی دکھائی دیتی ہے تو ہر آدمی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے کہ بے حیائی کرنے والے آدمی کو سمجھائے البتہ ادب و احترام کے ساتھ۔
دوسروں کو فحاشی سے تب منع کیا جاسکتا ہے کہ آدمی خود اس سے بالکل پرہیز کرتا ہو اور گناہ کا ارتکاب نہ کرتا ہو۔
گناہ کی قباحت کے ختم ہوجانے کا سب سے واضح نتیجہ یہ ہے کہ المناک حادثات مختلف پہلوؤں میں کھڑے ہوں گے جو صرف گنہگار آدمی کو نہیں بلکہ سب معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
حال حاضر میں سب سے اہم المیہ جو ہمارے دینی معاشرے کو نقصان دے رہا ہے اور کم ہی اس بات پر توجہ دی جاتی ہے، روزانہ کے کاموں میں  گناہ کی قباحت کا ختم ہونا ہے۔ یہ نقصان، معاشرے کے کسی خاص حصے پر اثرانداز نہیں، بلکہ سب ثقافتی، معاشرتی اور معاشیاتی وغیرہ کے تمام پہلوؤں میں، معاشرے کے مختلف طبقات میں کم و بیش دکھائی دیتا ہے اور اسی بات نے گناہ کو روزانہ کی زندگی میں عادت کی شکل دیدی ہے اور مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایک ذریعہ ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 20