خلاصہ: گناہ میں پائی جانے والی قباحت، معاشرے میں ختم نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ گناہ کی قباحت کا باقی رہنا گناہ کو پھیلنے نہیں دیتا۔
ہر معاشرے کے لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سماج میں گناہ اور برائی کی قباحت ختم نہ ہونے پائے۔ جب کوئی گناہ معاشرے میں عام ہوجاتا ہے تو اس کی قباحت ختم ہوجاتی ہے، حالانکہ وہ گناہ حقیقت میں دوسرے گناہوں کی طرح ہی برا، شرمناک اور لائق مذمت ہوتا ہے۔
معاشرے میں اگر کسی گناہ کی قباحت ختم ہوجائے تو کھلم کھلا گنہگار آدمی ہی ہلاکت کے گڑھے میں نہیں گرے گا، بلکہ معاشرے کے دوسرے لوگ بھی ہلاکت اور تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔
اگر معاشرے پر ایسی ثقافت چھائی ہوئی ہو کہ لوگ اور حتی وقت کے بڑے بڑے فاسق بھی گناہ کا کھلم کھلا ارتکاب کرنے سے شرم کریں یا ڈریں تو اس کے دو اخلاقی فائدے ہوں گے:
۱۔ گناہ عام نہیں ہوگا اور برائی نہیں پھیلے گی۔
۲۔ بڑے گناہ اور زیادہ خطرناک غلطیاں خفیہ طور پر ہرگز نہیں کی جائیں گی، کیونکہ تب بڑے گناہ خفیہ طور پر کیے جاتے ہیں کہ بیسیوں چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کا امکان کھلم کھلا ہو، لیکن جس ماحول میں لوگ کھلم کھلا گناہ کے ارتکاب سے شرم کریں تو لوگوں کی تربیت ایسی ہوگی کہ کسی کو بڑے گناہوں کے بارے میں سوچنے کی جرات تک نہیں ہوگی، لہذا ایسی ثقافت اور نظام ہر معاشرے پر چھاجانا چاہیے کہ کسی بھی گناہ کی قباحت لوگوں کی نظر میں ختم نہ ہوجائے۔
Add new comment