خلاصہ: اگر کوئی مصیبت اللہ سے قریب کرے تو وہ آزمائش ہےاور اگر اللہ سے دور کرے تو سزا ہے۔
خداوند متعال جب کسی کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے تو اس کو جان مال اولاد کے ذریعہ آزماتا ہے، جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) واضح طور پر اس طرح فرمارہے ہیں:«إذا رأيت ربّك يوالي عليك البلاء فاشكره، إذا رأيت ربّك يتابع عليك النّعم فاحذره؛ جب تم یہ دیکھو کہ تمھارا پروردگار تم پر بلاؤوں کو نازل کررہا ہے تو تم اس کا شکر ادا، جب تم یہ دیکھو کہ تمھارا پروردگار تم پر نعمتوں کو نازل کررہا ہے تو تم ڈرو»[غرر الحكم و درر الكلم، ص:۲۸۷]۔
تم پر جب کوئی مصیبت آئے اور وہ مصیبت تمہیں اللہ تعالیٰ سے قریب کرے تو سمجھو آزمائش ہے اگر مصیبت تمہیں اللہ سے دور کرے تو سمجھو سزا ہے۔
کسی نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا! لوگوں میں سب سے زیادہ اورسب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:«النَّبِيُّونَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ وَ يُبْتَلَى الْمُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَى قَدْرِ إِيمَانِهِ وَ حُسْنِ أَعْمَالِهِ فَمَنْ صَحَّ إِيمَانُهُ وَ حَسُنَ عَمَلُهُ اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَ مَنْ سَخُفَ إِيمَانُهُ وَ ضَعُفَ عَمَلُهُ قَلَّ بَلَاؤُهُ؛ انبیاء، پھر جو اْن کے جیسے ہیں اور پھر مؤمن کی آزمائش اس کے ایمان اور اس کے نیک اعمال کے بقدر کی جاتی ہے،اور اگر اس کا ایمان سچا اور اور اس کا عمل نیک ہوتاہے تو اس کی آزمائش میں اضافہ کردیا جاتا ہے اوراگر اس کے ایمان میں خفت ہوتی ہے اور عمل کمزور ہوتا ہے تو اس کی بلاؤوں کو کم کردیا جاتا ہے[الکافی، ج:۲، ص:۲۵۲]۔
*غرر الحكم و درر الكلم، : تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، دار الكتاب الإسلامي، قم، دوسری چاپ، ۱۴۱۰ ھ ق۔
*الکافی، محمد بن يعقوب بن اسحاقكلينى، دار الكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷۔
Add new comment