خلاصہ: مصیبتوں اور پریشانیوں میں سکون اور آرام کے ساتھ خدا کی رضا پر راضی رہنے کا نام صبر ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صبر یعنی نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صابر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی مدد کے ساتھ ساتھ صبر کرنے کا مستحکم ارادہ کرے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرنے کا نام صبر نہیں ہے بلکہ صبر، استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے بلکہ مصیبتوں اور پریشانیوں میں سکون اور آرام کے ساتھ خدا کی رضا پر راضی رہنے کا نام صبر ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «عَسىَ أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَ هُوَ خَيرٌ لَّكُمْ وَ عَسىَ أَن تُحِبُّوا شَیئاً وَ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ وَ أَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[سورۂ بقره، آیت:۲۱۶] اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم برا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ برا ہو خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو»، حضرت علی(علیہ السلام) اسی آیت کے مضمون سے مشابہ ایک حدیث میں فرمارہے ہیں: «الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ وَ صَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ، صبر دو طریقہ کا ہے: ایک صبر جس کو تم پسند نہیں کرتے اور دوسرا صبر جسے تم پسند کرتے ہو»[نهج البلاغة، ص۴۷۸]۔
حضرت کی نظر میں وہ صبر جسے کوئی پسند نہیں کرتا وہ ایسا صبر ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ امام(علیہ السلام) کی نظر میں صبر سے مراد ایسا صبر ہے جس کو تحمل کرنا اگر چہ بہت سخت ہے لیکن آخر میں اس کے بہت زیادہ فائدے ہیں۔
*نهج البلاغة، محمد بن حسين، ص۴۷۸، هجرت، قم، ۱۴۱۴ق.
Add new comment