خلاصہ: اسلام نے انسان کو صبر کرنے کی تلقین کی ہے اور واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
دومسافر ایک ساتھ سفر کررہےتھے، گھومتے گھومتے یہ لوگ شہر خراسان میں پہنچ گئے، ان دونوں ساتھیوں میں ایک نہایت نحیف و لاغر تھا اور وقت وقت سے کھانا کھاتا تھا، اور دوسرا نہایت تندرست و توانا تھا اور صبھ سے شام تک کچھ نہ کچھ کھاتا ہی رہتا تھا۔
اتفاق سے خراسان کی پولیس نے ان دونوں کو مشتبہ حالت میں دیکھ کر گرفتار کرلیا اور قید خانہ میں ڈال دیا، جب تین دن کے بعد قید خانہ کا دروازہ کھلا تو یہ دیکھ کر سب حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ دبلا پتلا لاغر آدمی زندہ سلامت ہے، اور ہنستا کودتا ہوا قید خانہ سے باہر آرہا ہے جب کہ موٹا تازہ پہلوان مرا پڑا ہے۔
معلوم ہوا کہ موٹا تازہ آدمی زیادہ کھانے والا تھا؛ اس لئے مصیبت برداشت نہ کرسکا اور مرگیا۔ اور لاغر آدمی کو تو صبر کی عادت تھی اس لئے اس نے صبر کیا اور سلامتی کے ساتھ قید سے نجات پائی۔
پیارے بچو!صبر سے بڑی کوئی دولت نہیں، جس کے اندر صبر کا مادہ ہوتا ہے وہ بڑی سے بڑی مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرلیتا ہے۔ اسی لئے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مقام پر فرمایا ہے: ’’مَا أُعْطِيَ عَطَاءٌ خَيْرٌ وَ أَوْسَعُ مِنَ الصَّبْر‘‘(مستدرک الوسائل ، ج2، ص430)صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے بڑھ کر کبھی کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔
منبع و ماخذ
(مستدک الوسائل، نورى، حسين بن محمد تقى، محقق / مصحح: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، 1408 ق،چاپ اول۔)
Add new comment