خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں مادی اور معنوی بوجھ کے باہمی چند فرق بیان کیے جارہے ہیں۔
خطبہ فدکیہ جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا خطبہ ہے، آپؑ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا مقام بیان کرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے خطبہ کو جاری رکھا۔ "ثُمَّ الْتَفَتَتْ إلی الَمجْلِسِ وَ قالَتْ: اَنْتُمْ عِبادَ اللّهِ نُصْبُ أَمْرِهِ وَ نَهْيِہِ، وَ حَمَلَةُ دينِهِ وَ وَحْيِهِ، وَ اُمَناءُ اللّهِ عَلی اَنْفُسِكُمْ وَ بُلَغاؤُهُ إلَی الْأُمَمِ"، "پھر آپؑ نے (مسجد میں) موجود لوگوں کو مخاطِب ہوتے ہوئے فرمایا: اے اللہ کے بندو، تم اس کے امر اور نہی کےمخاطَب ہو، اور اس کے دین اور اس کی وحی کو اٹھانے والے ہو، اور اپنے اوپر اللہ کے امین ہو، اور اس کے (پیغام کو) امتوں تک پہنچانے والے ہو"۔
وضاحت:
محمول اور اٹھائی جانے والی چیز کبھی مادی چیز ہوتی ہے تو انسان کا جسم اسے اٹھاتا ہے جیسے وہ آدمی جو کسی بوجھ کو اپنے کندھے پر اٹھا کر کہیں لے جاتا ہے، اور کبھی غیرمادی چیز ہوتی ہے تو انسان کی روح، عقل اور دل اسے اٹھاتا ہے اور روح کیونکہ غیرمادی چیز ہے تو غیرمادی چیز کو اٹھاتی ہے۔ بعض غیرمادی امور، معنوی ہیں جیسے: علم، معرفت، ذمہ داری اور اس طرح کے امور۔
مادی اور معنوی بوجھ کے آپس میں بعض فرق یہ ہیں:
۱۔ مادی بوجھ میں طبعی طور پر حامل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن معنوی بوجھ میں، بوجھ طبعی طور پر نقصان دہ نہیں ہوتا، بلکہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
۲۔ مادی بوجھ کو اٹھانے میں حامل کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہوتی، لیکن معنوی بوجھ کو اٹھانے میں حامل کو فضیلت ملتی ہے، بلکہ اس کی قدر اس کے بوجھ کی قدر کی وجہ سے ہوتی ہے۔
۳۔ مادی بوجھ کو حامل منتقل کرتا ہے اور کسی جگہ لے جاتا ہے اور پہنچاتا ہے، لیکن معنوی بوجھ میں بوجھ بھی حامل کو اٹھاکر اوپر والے رتبوں پر پہنچاتا ہے، جیسا کہ نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۹۸ میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اسلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: "وَحَامِلاً لِمَنْ حَمَلَهُ، وَمَطِيَّةً لِمَنْ أَعْمَلَهُ"، "اسلام اٹھاتا ہے اسے جو اسے اٹھائے، اور لے جاتا ہے اسے جو اس پر عمل کرے"۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ماخوذ از: قرآن شناسی، ص۱۳، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment