عبودیت اور بندگی کے جذبہ کے ذریعے لوگوں کو پکارنا

Sun, 07/05/2020 - 12:09

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں اللہ کی عبودیت اور بندگی اختیار کرنے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔

عبودیت اور بندگی کے جذبہ کے ذریعے لوگوں کو پکارنا

خطبہ فدکیہ جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا خطبہ ہے، آپؑ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا مقام بیان کرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے خطبہ کو جاری رکھا۔ "ثُمَّ الْتَفَتَتْ إلی الَمجْلِسِ وَ قالَتْ: اَنْتُمْ عِبادَ اللّهِ نُصْبُ أَمْرِهِ وَ نَهْيِہِ"، "پھر آپؑ نے (مسجد میں) موجود  لوگوں کو مخاطِب ہوتے ہوئے فرمایا: اے اللہ کے بندو، تم اس کے امر اور نہی کےمخاطَب ہو"۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]

وضاحت:
اللہ تعالیٰ کی بندگی، کیونکہ خلقت کی بھی حکمت ہے اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بعثت کی بھی حکمت ہے، اور اللہ تعالیٰ کے امر کی اطاعت کرنا اور نہی سے پرہیز کرنا اور دین کو سمجھنا اور اس کا پابند رہنا بندگی کی نشانیوں میں سے ہیں تو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں، لہذاقرآن کریم کے صفات بیان کرنے سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے کچھ ارشادات اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے لوازمات کے بارے میں ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے صفات بیان کرنے کے بعد اس فقرے میں موجود لوگوں کو مخاطِب ہوتے ہوئے ان کو "عبادَاللہ" کے لفظ سے مخاطَب قرار دیا۔ اس طرح خطاب کرنے میں حکمت ہوتی ہے۔
جیسا قرآن کریم میں "یا ایّھا الذّین آمنوا"، "اے ایمان والو" سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ان باتوں کو سنیں۔
"یاایّھا الناس" کے خطاب میں سب انسانوں اور لوگوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے اور اگرچہ بعض لوگوں میں ایمان اور بندگی نہ پائی جاتی ہو مگر صرف انسان ہونے کے لحاظ سے انہیں چاہیے کہ اس بات کو سنیں اور اس پر عمل کریں۔
جب لوگوں کو "عبادَاللہ" کے لفظ سے مخاطب قرار دیا گیا ہے تو اس میں یہ حکمت پائی جاتی ہے کہ اگلے فقروں میں آنے والی باتیں، بندوں کا بندگی کے راستے پر گامزن رہنے کے مقصد سے ہیں کہ اگر تم اللہ کے بندے ہو تو تمہارا کردار ایسا ہونا چاہیے اور تمہیں بندگی کے شرائط کا پابند رہنا چاہیے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ اسراء کی آیت ۵۳ میں ارشاد فرمایا ہے: "وَقُل لِّعِبَادِي..."، "اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے..."۔ اور جیسے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللهِ"، "میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کے بندو"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۸۳]
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ کے اس فقرے میں "عبادَاللہ" کے الفاظ کے ذریعے، لوگوں میں جو بندگی کا جذبہ پایا جاتا ہے اسے پکار رہی ہیں اور حاضر لوگوں کو مطلع فرما رہی ہیں کہ اگر تم، اللہ کے سچے بندے ہو تو اللہ کی بندگی اختیار کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی سے پرہیز کرو۔ جو اللہ کا حقیقی بندہ ہو وہ اللہ کے حکم کو سنتا ہے اور صرف اسی کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اللہ کے حکم کو ہر حکم پر ترجیح دیتا ہے۔

* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* نہج البلاغہ، خطبہ ۸۳۔
* ماخوذ از: قرآن شناسی، ص۱۱، محمد علی مجد فقیہی۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 29