نبی اکرمؐ کے قبضِ روح کے چار عظیم صفات

Thu, 06/25/2020 - 18:51

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قبضِ روح کے چار عظیم صفات بیان کیے جارہے ہیں۔

نبی اکرمؐ کے قبضِ روح کے چار عظیم صفات

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "ثُمَّ قَبَضَهُ اللّهُ إلَيْهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِيارٍ وَ رَغْبَةٍ وَ إيْثارٍ فَمُحَمَّد ٌ  صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَعَبِ ھَذِهِ الدّارِ فی راحَةٍ"، "پھر اللہ نے آپؐ کی روح مہربانی اور اختیار اور رغبت اور (آخرت کو) ترجیح دینے کے ساتھ اپنی طرف قبض کی تو (اب) محمدؐ اس دنیا کی تکلیف سے سکون میں ہیں"۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]

وضاحت:
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی روح رأفت اور مہربانی کے ساتھ قبض کی، اس طرح سے کہ روح کے قبض ہونے میں آپؐ کے لئے دشواری نہیں تھی۔ رأفت اور رحمت کا ایک دوسرے سے فرق یہ ہے کہ "رحمت" میں ہوسکتا ہے کہ آدمی کو خود اکراہ ہو یعنی وہ خود پسند نہ کرتا ہو کہ اس پر رحمت ہو، اگرچہ اس میں مصلحت اور فائدہ بھی پایا جاتا ہو، لیکن رأفت میں مصلحت بھی ہوتی ہے اور آدمی کو اس میں کسی قسم کی ناپسندی بھی نہیں ہوتی۔ لہذا آپؐ کی روح کے قبض ہونے میں دونوں طرف سے رضایت تھی، اللہ بھی راضی تھا اور آپؐ بھی راضی تھے۔
پھر یہ ہے کہ قبضِ روح رغبت اور اشتیاق سے تھا۔ یہ رغبت اور ایثار (ترجیح)، آنحضرتؐ کی طرف سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مہربانی کے ساتھ روح قبض کی اور آنحضرتؐ نے بھی دنیا کی زندگی کو نظرانداز کردیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حیات کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دی، لہذا اِس دنیا سے آپؐ کے جانے اور آپؐ کے لئے دنیا کی تکلیفوں کے ختم ہوجانے پر اللہ بھی راضی تھا اور آپؐ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے کی رغبت تھی تو اسے اختیار کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی رسالت کے اختتام پذیر ہونے کے بعد اپنی طرف بلا لیا اور آپؐ بھی اس دنیا سے چل بسے، نہ دنیا سے تنگ ہوکر اور نہ ہی جبر کے ساتھ، بلکہ اپنی ذمہ داری ادا کرلینے کے بعد اور اختیار کے ساتھ۔

* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* اکثر مطالب ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۷، محمد علی مجد فقیہی۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 61