خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بعثت کے وقت لوگوں کی صورتحال بیان کی جارہی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها، عُكَّفاً عَلي نيرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها، مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها"، "تو آنحضرتؐ نے (اس زمانے کی) اقوام کو (اس حال میں) پایا کہ وہ اپنے ادیان میں فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں، اپنی آگ میں منہمک تھیں، اپنے بتوں کی عبادت کررہی تھیں، (اللہ کو فطری طور پر) پہچاننے کے باوجود اللہ کی منکر تھیں"۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]۔
وضاحت:
عُكَّفاً: عُکَّف، عاکِف کی جمع ہے، عاکف اسے کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے ساتھ رہے اور اس کی حفاظت کرے۔ اس لفظ سے دو معنی حاصل ہوتے ہیں سلبی اور ایجابی۔ سلبی معنی یہ ہیں کہ کسی چیز یا کسی شخص سے دوری اختیار کی جائے اور اس سے رخ موڑ لیا جائے اور کسی کونے میں پناہ لی جائے، اور ایجابی معنی یہ ہیں کہ جو چیز آدمی کو پسند ہے اس پر مکمل توجہ کرے اور اس میں منہمک ہوجائے۔ یہ دو معنی ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔
اُدھر سے عُکوف کا مثبت پہلو بھی ہے اور منفی پہلو بھی۔ مثبت پہلو، اللہ کی طرف عُکوف کرنا اور رُخ کرنا اور اللہ کے علاوہ ہر چیز سے رخ موڑ لینا ہے۔ اس کا منفی پہلو یہی ہے جو خطبہ فدکیہ کے اس فقرے میں بیان ہوا ہے کہ وہ اقوام اپنی آگ میں منہمک تھیں۔
نیران: نار کی جمع ہے، نار یعنی آگ اور نیران یعنی آگیں۔
اپنی آگوں میں منہمک ہونے سے مراد ہوسکتا ہے کہ آگ کی پوجا ہو اور ہوسکتا ہے کہ مراد وہ آگ ہو جو اُن کے باطل عقائد اور غلط کردار سے بھڑکتی تھی اور ان کے وجود کی حقیقت کو جلا رہی تھی اور تباہ کررہی تھی۔ ظلم، غصہ اور فساد آگ کے مظاہر ہیں، یعنی وہ لوگ اس آگ میں منہمک تھے جسے انہوں نے اپنے گناہوں سے بھڑکایا تھا اور اس میں گرفتار ہوچکے تھے۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment