خلاصہ: حقیقت کے بارے میں انسان کو اپنی سوچ کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ گھاٹا نہ اٹھائے۔
انسان کو چاہیے کہ ہر چیز کو حقیقی نظر سے دیکھے نہ کہ اپنی خیالی افکار کےآئینہ میں،کیونکہ خیالی باتیں اورسوچیں وقوع پذیر نہیں ہوتیں بلکہ صرف ذہن میں رہتی ہیں، لیکن حقیقت وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جب انسان کے لئے حقیقت وقوع پذیر ہوجائے تو وہ حقیقت اپنے اثرات انسان پر ڈالتی ہے۔ حقائق میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ انسان تھوڑی سی دیر کے لئے اس دنیا میں ٹھہرا ہے اور اس دنیا کے بعد اس نے ہمیشہ ہمیشہ آخرت کی زندگی میں رہنا ہے جو لامحدود ہے۔ اس ابدی زندگی کے لئے زادراہ اور سامانِ سفر اِسی دنیا سے فراہم کرکے لے جانا ہے، کیونکہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
لہذا دنیا کو عیش و نوش کرنے کی جگہ نہیں سمجھا جاسکتا، اس لیے کہ یہاں کی زندگی حقیقی زندگی ہے ہی نہیں، حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جس کے بعد موت نہیں ہے، جبکہ دنیاوی زندگی طرح طرح کی مشکلات اور مصیبتوں میں لپٹی ہوئی ہے اور اس کے بعد موت یقیناً ہے۔
دنیا کی لذتوں میں مگن ہوجانا آخرت کی فراموشی اور قیامت کے حساب و کتاب سے غفلت کا باعث ہے، لہذا یہاں کی غفلت وہاں کی ناکامیوں اور حسرتوں کا سبب بن جائے گی۔
حقیقی حیات کیونکہ آخرت کی زندگی ہے تو آخرت سے لاپرواہی، اپنی حقیقی زندگی سے لاپرواہی کے مرادف ہے اور یہ غفلت بالکل گھاٹا ہے، کیونکہ اس لاپرواہی کے ذریعے انسان کا سرمایہ تباہ ہوتا جارہا ہے، یہ سرمایہ اس کی چند دن کی دنیاوی زندگی ہے۔
Add new comment