خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بعثت کے وقت لوگوں کی صورتحال بیان کی جارہی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها، عُكَّفاً عَلي نيرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها، مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها"، "تو آنحضرتؐ نے (اس زمانے کی) اقوام کو (اس حال میں) پایا کہ وہ اپنے ادیان میں فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں، اپنی آگ پر منہمک تھیں، اپنے بتوں کی عبادت کررہی تھیں، (اللہ کو فطری طور پر) پہچاننے کے باوجود اللہ کی منکر تھیں"۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]
وضاحت:
فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها:
اُمَم، امت کی جمع ہے، جیسے غُرَف جو غُرفَۃ کی جمع ہے۔
فِرَق، فُرقہ کی جمع ہے، لوگوں سے الگ ہونے والا گروہ۔
ادیان، دین کی جمع ہے۔
لہذا یہاں پر یہ تینوں الفاظ "اُمَم، فِرَق، ادیان" جمع کی صورت میں استعمال ہوئے ہیں۔
اس زمانے کی اقوام ایک دوسرے سے بکھری ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے عقیدوں کو واحد بنانے کے لئے اور برحق دین کو متعارف کرانے کے لئے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ان کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ آپؐ ان کو توحید کی طرف ہدایت فرمائیں۔
لہذا پلورالیزم اور دینی کثرتیت کا نظریہ بالکل باطل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو شخص جس دین پر ہو وہ صحیح اور حق پر ہے۔ بعثت سے پہلے ادیان میں یہی کثرت تھی کہ کوئی گروہ آتشکدے میں آگ کی پوجا میں منہمک تھا اور کوئی گروہ بتکدے میں بتوں کی پوجا میں مصروف تھا، ان مختلف من گھڑت دینوں کو ختم کرنے کے لئے اور دین اسلام کو قائم کرنے کے لئے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بعثت کی انتہائی ضرورت تھی۔
سورہ جمعہ کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"، "وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے"۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment