خلاصہ: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): جس نے معاہد(اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی سونگ نہیں پائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند متعال نے ہر انسان کے لئے حقوق معین فرمائے ہیں اور ہر کسی کو اس کا حق دینے کے حکم دیا ہے اور جو کوئی کسی دوسرے کو اس کا حق نہ دے چاہے وہ حق کسی کمزور یا اقلیت میں رہنے والے کا ہی کیوں نہ ہو اس کی مذت کی ہے جیسا کے امام زین العابدین(علیہ السلام) اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اس حدیث میں فرمارہے ہیں:«مَنْ ظَلَمَ مُعَاهَداً كُنْتُ خَصْمَهُ فَاتَّقِ اللَّهَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه؛ جس کسی نے کسی معاہد(اقلیتی فرد) پر ظلم کیا، میں اس کا دشمن ہوں، پس تم اللہ سے ڈرو اور خدا کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے»[بحارالانوار، ج:۷۱، ص:۲۱]۔
یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دورِ میں جاری تھا جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک حدیث میں اس طرح فرمارہے ہیں: «لَمْ يَبْعَثْنِي رَبِّي عَزَّ وَ جَلَّ بِأَنْ أَظْلِمَ مُعَاهَدا؛ میرا پالنے جو صاحب جلالت ہے اس نے مجھے مبعوث نہیں کیا تا کہ میں معاہد(اقلیتی فرد) پر اور دوسروں پر ظلم کرو»[بحارالانوار، ج:۱۱، ص:۲۱۶]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اقلیتوں کے بارے میں مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے جیسا کہ ایک دن آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:«مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ؛ جس نے معاہد(اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی سونگ نہیں پائے گا»[مفردات ألفاظ القرآن، ص:۲۷۰]۔
*مفردات ألفاظ القرآن، حسين بن محمدراغب أصفهانى، دار القلم(الدار الشامية)، بيروت(دمشق)، ۴۰۱۲ ھ ق۔
*بحار الانور، محمد باقر مجلسی، دار إحياء التراث العربي، بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳۔
Add new comment