والدین کے حقوق

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:قرآن و روایات کی نظر سے والدین کےحقوق کی اہمیت

والدین کے حقوق

قرآن کی نظر سے والدین کےحقوق کی اہمیت

 خدا عالم قرآن کریم میں جب لوگوں کو شرک سے منع کیا ہے اس کے فورا بعد والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کی سفارش کی ہے ۔ مثلا  ً  جب بنی اسرائیل کے ساتھ عھد ہوا تب  فرمایا : اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کرناً نماز قائم کرنا زکوٰۃ   ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو ۔1

واضح ہے  اس طرح کا عھد لینا کہ والدین کے ساتھ نیکی کرو  اس کو ایک خاص  اہمیت ہے تبھی اس کا حکم دیا گیا ہے ۔

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا : اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا۔۲

اسی طرح کا بیان سورہ نساء آیہ ۳۶ ، سورہ انعام آیہ ۱۵۱، سورہ عنکبوت آیہ ۸، سورہ لقمان آیہ ۱۵ ، میں بھی آیا ہے ۔

اس سے ہٹ کر قرآن میں خدا نے اولیا ، انبیا ، والدین  کے ساتھ نیکی کی بہت تاکید کی ہے ۔

ایک اور جگہ یوں کہا:اور اپنے ماں باپ کے حق میں نیک برتاؤ کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔۳

روایات کی نظر سے والدین کےحقوق کی اہمیت

روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ اعمال میں سے کونسے اعمال بالاتر ہیں ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : نماز کا اول وقت میں پڑھنا ، والدین کے ساتھ نیکی کرنا ، جھاد کرنا ، اب خود سوچ لیں کہ امام علیہ السلام نے نماز اول وقت کے بعد والدین کا ذکر کیا اور جھاد سے پہلے ذکر کیا یعنی کوئی خاص اہمیت ہے اسی لیے تو اس طرح سے بیان فرمایا۔

ایک اور روایت میں امام صادق علیہ السلام نے یوں فرمایا کہ والدین کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ نیک ہوں یا گنہکار ، یعنی  انسان کے پاس کوئی راستہ نہیں مگر یہ کہ والدین کے ساتھ نیکی کرے ۔ ۴

والدین کے حقوق قرآن و روایات میں مصداقی حوالے سے

قرآن و روایات میں جو مصادیق  والدین کے حقوق کے بارے  کہ وہ  اولاد پر فرض ہیں کچھ اس طرح سے بیان ہوئے ہیں ۔

1۔ اچھی گفتگو

جیسا کہ بیان ہوا ہے : اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا۔۵

امام صادق علیہ السلام  ارشاد فرماتے ہیں : اگر    اف سے نیچے کے درجے کا کوئی لفظ ہوتا تو  خداوند متعال اس کے ذریعے سے منع کرتا ۔ ۶

2۔والدین کے سامنے   تواضع

آیہ شریفہ میں اس طرح بیان ہوا ہے : اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔۷

3۔ اطاعت کرنا

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : اولاد پر والدین کے حق میں ۳ وظیفہ ہیں ۔  ایک :ہر حال میں والدین کا شکر گذار رہنا ۔دو:امر و نہی میں ان کی اطاعت کرنا سوائے معصیت خدا ۔ تین:خیر  خواہی چاہنا ۔ ۸

4۔ دعا کرنا

بہت ساری آیات میں ذکر ہوا ہے کہ والدین کے لیے دعا کرو : اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔۹

امام موسی کاظم علیہ السلام سے جب والدین کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اولاد کے لیے ضروی ہے کہ وہ والدین کو کبھی نام سے نہ پکاریں ، راستہ چلتے ہوئے کبھی ان سے آگے نہ چلیں ۔۱۰

اور اسی طرح آیہ شریفہ میں آیا ہے : پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راہ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدین قرابتدار  ایتام مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی خیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔11

ارشاد ہوا : اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ...._ کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔۱۲

ایک اور جگہ فرمایا: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کی نصیحت کی کہ اس کی ماں نے بڑے رنج کے ساتھ اسے شکم میں رکھا ہے اور پھر بڑی تکلیف کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے حمل اور دودھ بڑھائی کا کل زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی کہ پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے کہ میں تیری ہی طرف متوجہ ہوں اور تیرے فرمانبردار بندوں میں ہوں۔۱۳

منابع
[1] بقره، 83.
[2]  اسراء، 23.
[3] "و بَرّا بوالدیه و لم یکن جبارا عصیا" مریم، 14.
[4] شیخ طوسی، التهذیب، ج 6، ص 350، درا الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ش.
[5] اسراء، 23.
[6] کلینی، کافی، ج 2، ص 349.
[7] اسراء، 24.
[8] علامه مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 236، موسسة الوفاء، بیروت، لبنان، 1404 ق.
[9] اسراء، 24.
[10] کلینی، کافی، ج 2، ص158، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 ش.
[11] بقره، 215.
[12]  لقمان، 14
[13]  احقاف، 15

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 47