خلاصہ: فضول اور غلط سوچوں کو ذہن میں آنے سے روکنا چاہیے کیونکہ غلط سوچیں رفتہ رفتہ آدمی کو برے کاموں پر آمادہ کردیتی ہیں۔
انسان کا ذہن ایسا ہے کہ لمحہ بھر بھی سوچ سے خالی نہیں رہتا اور مسلسل مختلف افکار اور سوچیں ذہن میں آتی رہتی ہیں، مگر انسان کا اس کام پر اختیار ہے کہ کون سی سوچ اس کے ذہن میں آئے اور آدمی اس سوچ کو جاری رکھے اور کن افکار کو ذہن میں آنے سے روک لے۔
انسان کی خواہشات جو انسان کے وجود کی گہرائی میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور آدمی جن خوشیوں اور پریشانیوں سے متاثر ہوتا ہے، جو اس کے نظریات، عقائد، اخلاق، اعمال اور کردار ہے، آدمی اس کے مطابق اچھی یا بری سوچ کو اپنے ذہن میں لاتا ہے۔
اسی وجہ سے غلط سوچوں کی جڑ کو ڈھونڈنا اور پہچاننا ایسا کام ہے جو ہر آدمی اپنے بارے میں کرسکتا ہے اور اس کے اسباب اور جڑوں کو ختم کرنے کے ذریعے ان افکار کے نقصانات سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔
جو سوچیں ذہن میں آتی ہیں، بعض اوقات شیطان کی طرف سے ہوتی ہیں جنہیں جلد از جلد ختم کردینا چاہیے، کیونکہ یہ شیطانی سوچیں جلد ہی انسان کو ان سوچوں کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔
انسان کو اللہ سے دور کرنے والے اور غفلت میں ڈالنے والے بہت بڑے اسباب میں سے کچھ یہی شیطانی سوچیں ہیں۔ بعض اوقات یہ افکار اتنی انسان پر اثرانداز ہوتی ہیں کہ انسان نماز جیسی بہترین عبادت کی حالت میں حضورِ قلب کو کھو بیٹھتا ہے۔ ایسی سوچوں کو ابتدا ہی سے بڑھنے اور جڑ پکڑنے سے روک لینا چاہیے۔
باتیں کرنے، سننے، محفلوں میں بیٹھنے اور فضول اور بے فائدہ باتیں پڑھنے سے سوچ رفتہ رفتہ ذہن میں بنتی ہے اور جب مل کر زیادہ ہوجاتی ہیں اور ان کا ڈھیر لگ جاتا ہے تو چاہے اچھی ہو یا بری اس کی طرف شوق کا راستہ فراہم ہوجاتا ہے اور بالآخر یہ سوچیں "نفسانی ملکہ" بن جاتی ہیں تو اس کے بعد وہ سوچیں آسانی سے ذہن میں آجاتی ہیں اور ان کی طرف توجہ رہتی ہے اور انسان کو مسلسل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل رکھتی ہیں، اسی لیے جن لوگوں کی دنیاوی اور مادی سوچ ہوتی ہے وہ ہمیشہ مادی لذت پیدا کرنے والی چیزوں اور کاموں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
Add new comment