خلاصہ: جب نظام کائنات کے تعادل اور توازن میں غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مخلوقات کی خلقت عدل الٰہی کے عین مطابق ہے۔
علیم، حکیم اور عادل اللہ نے جو کچھ پیدا کیا ہے، حکمت اور مصلحت کی بنیاد پر پیدا کیا ہے اگرچہ ہماری عقل اس بات کا ادراک نہ کرسکے۔
فرق کا پایا جانا، نظامِ احسن کی خلقت کا لازمہ اور ضرورت ہے تاکہ ہر مخلوق اپنا کردار ادا کرسکے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو عدل کی بنیاد پر خلق کیا ہے اور سب مخلوقات کو ان کی گنجائش اور صلاحیت کے مطابق وجود اور وجود کے کمالات عطا فرمائے ہیں۔ کائنات کا ہر حصہ اپنی اپنی جگہ پر استعمال ہوا ہے اور نظم اور مُعَیَّن حساب کی بنیاد پر، ہر چیز میں ہر مادہ ضرورت جتنا استعمال ہوا ہے اور کائنات کی عمارت متوازن اور متعادل طور پر بنائی گئی ہے اور ہر چیز اپنی جگہ پر خوبصورت ہے۔
انسان جب اس حقیقت کو سمجھ جائے کہ کائنات میں عدل الٰہی قائم ہے اور جو فرق اور نقص دکھائی دیتے ہیں، گنجائشوں اور صلاحیتوں میں فرق کی وجہ سے ہے جو کمالات کو لینے میں خود مخلوقات کی طرف سے ہے۔
جب انسان اس ادراک تک پہنچ جائے کہ نظام کائنات کا لازمہ یہ ہے کہ مخلوقات کے مختلف مراتب اور درجات ہونے چاہئیں اور یہ فنا و بقا، دوام و زوال اور کمال و نقص کا باعث بنتا ہے اور مختلف حصوں میں فرق کا ہونا ہی کل نظام میں تعادل اور توازن کا سبب بنتا ہے، تو انسان نظام کائنات کو خوبصورت ترین نظام دیکھتا ہے۔
ان مطالب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مخلوقات کسی قسم کا اعتراض نہیں کرسکتیں۔ سورہ نساء کی آیت ۳۲ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ"، "اور اللہ نے تم سے بعض کو دوسرے بعض پر جو زیادتی (بڑائی) عطا کی ہے۔ تم اس کی تمنا نہ کرو"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment