خلاصہ: اگر انسان دنیاوی امتحانوں کا غور سے مطالعہ کریں تو وہ کبھی بھی آخرت کو نہیں بھول سکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک طالب علم جب امتحان دینے کے لئے امتحان گاہ میں جاتا ہے تو اس کے امتحان کا وقت مثال کے طور پر تین گھنٹے ہوتا ہے، لیکن اس تین گھنٹے کا اثر اس کی آنے والے تمام عمر پر پڑتا ہے، اگر وہ امتحان میں کامیاب ہوجائے تو وہ اپنی ساری زندگی آسانی کے ساتھ بسر کرسکتا ہے۔
دنیا بھی انسان کے لئے اسی امتحان گاہ کی طرح ہے جہاں اس ہر لمحہ امتحان سے گزرنا ہے جس کا عوض اسے آخرت میں ملنے والا ہے جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔
لیکن ان دونوں امتحانوں میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر:
۱۔اگر ایک طالب علم اپنے امتحان میں کامیاب نہ بھی ہو تو وہ دوبارہ اس امتحان کو دے سکتا ہے لیکن اگر انسان اپنی زندگی کے امتحان میں جس کا نتیجہ اسے آخرت میں ملنے والا ہے اگر اس میں کامیباب نہ ہو تا پھر اسے دوبارہ کبھی بھی کوئ موقع ملنےوالا نہیں ہے۔
۲۔ ان دونوں امتحانوں میں ایک اور بہت بڑا فرق یہ پایا جاتا ہے، دنیاوی امتحان کا فائدہ یا نقصان اسے اس دنیا میں ہی ملتا ہے جس کا عرصہ اور وقت صرف ۳۰ یا ۴۰ سال ہے لیکن زندگی کا امتحان جو انسان کو آخرت کے لئے دینا ہے وہ اتنا لمبہ ہے کے اس کا انعمام یا عذاب اسے سالھا سال ملتا ہی رہتا ہے وہ اتنا بڑا عرصہ ہے کہ ہم میں کسی کو بھی اس کے بارے مین ذرا برابر بھی علم نہیں ہے،
اسی لئے معصومین(علیہم السلام) نے ہمیں اس دنیا میں اخرت کے لئے کام کرنے کی بہت زیادہ تشویق اور تاکید فرمائی ہے جیسا کے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس حدیث میں فرمارہے ہیں: «الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَة؛ دنئا آخرت کی کھیتی ہے»[مجموعة ورّام، ج:۱، ص:۱۸۳]۔
*مجموعة ورّام،مسعود بن عيسى، مكتبه فقيه، قم، ۱۴۱۰۔
Add new comment