خلاصہ: دنیا کو دو نظروں سے دیکھا جاسکتا ہے، انہی دو نظروں کی وجہ سے دنیا لائق تحسین بھی ہوسکتی ہے اور لائق مذمت بھی۔
دنیا انسان کی نجات کا باعث بھی ہوسکتی ہے اور بدبختی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ درحقیقت دنیا کے بارے میں انسان کے اپنے تصور پر منحصر ہے۔
اگر دنیا انسان کا مقصد ہو اور اس کا مال و دولت اور مقام و منصب اور چمک دمک اس کا آخری محبوب اور مطلوب ہو کہ جسے انسان نے اپنا بت بنا لیا ہو تو یقیناً یہ دنیا قابل مذمت ہے اور حسرت اور پریشانی کا باعث بنے گی اور اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز بُری نہیں ہے۔ ایسی سوچ کی بنیاد پر دنیا انسان کے لالچ، ظلم اور ذلت کو بڑھائے گی، نعمتیں زوال پذیر ہوجائیں گی اور انسان نے ان سے متعلق آخرت میں جواب دینا ہوگا۔
اگر انسان دنیا کو وسیلہ کی نظر سے دیکھتا ہے، اسے آخرت کی کھیتی سمجھتا ہے اور اسے انسانی بلند اقدار تک پہنچنے کے لئے وسیلہ اور سبب جانتا ہے تو ایسی دنیا قابل تحسین ہے۔ اس سوچ کی بنیاد پر اگر مال و دولت اور مقام اور نعمتوں کو آخرت کی ہمیشہ والی سعادت کے حصول کا وسیلہ سمجھا جائے تو اس سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ سوچ انسان کو پاکیزگی، تقوا، حریّت اور عزت کی طرف گامزن کرتی ہے اور دنیا کی فانی نعمتیں آخرت کی باقی رہنے والی نعمتوں میں بدل جاتی ہیں۔
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بعض آیات اور روایات میں دنیا کی تعریف کیوں ہوئی ہے اور بعض دیگر میں دنیا کی مذمت کیوں ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ناواقف آدمی پہلے ان کے درمیان تضاد و تنافی سمجھے، جبکہ ایسا نہیں، بلکہ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہے اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، جہاں تعریف ہوئی ہے وہاں مقصود یہ ہے کہ دنیا سبب اور وسیلہ ہے اور جہاں مذمت ہوئی ہے وہاں مقصود دنیا کا مقصد بن جانا ہے، یعنی اگر دنیا انسان کا مقصد بن جائے تو ایسی دنیا کی مذمت ہوئی ہے۔
انسان کو یاد رہنا چاہیے کہ دنیا درخت کے اُس سائے کی طرح ہے جس میں انسان کچھ دیر آرام کرتا ہے، لیکن تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ سایہ چلا جاتا ہے اور اس جگہ پر دھوپ آجاتی ہے۔
Add new comment