خلاصہ: اصول کافی کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ایک حدیث کی وضاحت کی جارہی ہے جس میں عبرت کے نور کو بجھانے کا نقصان بیان کیا گیا ہے۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "یا هِشَامُ، مَنْ سَلَّطَ ثَلَاثاً عَلَى ثَلَاثٍ، فَكَأنَّمَا أَعَانَ عَلَى هَدْمِ عَقْلِهِ: مَنْ أَظْلَمَ نُورَ تَفَكُّرِهِ بِطُولِ أَمَلِهِ، وَمَحَا طَرَائِفَ حِكْمَتِهِ بِفُضُولِ كَلَامِهِ، وَأَطْفَأَ نُورَ عِبْرَتِهِ بِشَهَوَاتِ نَفْسِهِ ، فَكَأَنَّمَا أَعَانَ هَوَاهُ عَلى هَدْمِ عَقْلِهِ ، وَمَنْ هَدَمَ عَقْلَهُ ، أَفْسَدَ عَلَيْهِ دِينَهُ وَدُنْيَاهُ"، "اے ہشام، جس شخص نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلّط کردیا تو ایسا ہے جیسے اس نے اپنی عقل کو تباہ کرنے پر مدد کی: جو شخص اپنی طویل آرزو کے ذریعے اپنے تفکّر کے نور کو بجھا دے، اور اپنی حکمت کی خوبصورتیوں کو اپنی فضول باتوں سے مٹا دے، اور اپنی عبرت کے نور کو اپنی نفسانی خواہشات کے ذریعے بجھا دے، تو گویا اس نے اپنی (نفسانی) خواہش کو اپنی عقل کے تباہ کرنے پر مدد کی، اور جس نے اپنی عقل تباہ کردی، اس نے اپنے خلاف اپنے دین اور دنیا کو برباد کردیا"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۷]
وضاحت:
جو آدمی مختلف مسائل میں غوروخوض کرتا ہے اور مخلوقات، کاموں اور کرداروں کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتا تو وہ توجہ کرنے والا اور عبرت لینے والا شخص ہے۔
عبرت لینے والا شخص جب کسی واقعہ سے سامنا کرتا ہے تو اس کے ظاہر پر نہیں رُک جاتا، بلکہ اس سے عبور کرتا ہے یعنی اس سے گزرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کی وجوہات کو پہچانے اور اس کے مختلف پہلوؤں کی چھان بین کرتا ہے تاکہ وہ تلخ حادثہ دوبارہ پیش نہ آئے۔
جو شخص اپنی نفسانی خواہشات کا قیدی ہے، اگر اسے تجربات کی وجہ سے عبرتیں حاصل ہوجائیں تو اسے ان عبرتوں سے زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ نفسانی خواہشات اسے برے کاموں کا بار بار تجربہ کرنے پر مجبور کریں گی یہاں تک کہ اس کا دین اور دنیا تباہ ہوجائیں گے۔
اگر آدمی اپنی نفسانی خواہشات کا شکار ہوکر ان کا قیدی بن جائے تو جو اسے نقصانات اور تلخ تجربات ہوتے ہیں ان سے عبرت نہیں لے سکتا۔
عبرت میں ایسا نور ہوتا ہے جو دنیا سے آخرت تک پہنچنے میں انسان کو مدد کرتا ہے۔
آدمی زمانے کے واقعات کو صرف دیکھے نہیں، بلکہ ان سے عبرت لے اور جہالت سے علم کی طرف عبور کرے اور گزر جائے، ظلم سے عدل کی طرف، باطل سے حق کی طرف، جھوٹ سے سچائی کی طرف اور شرّ سے خیر کی طرف گزر جائے۔
* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
* ماخوذ از: بیانات حجت الاسلام سید مرتضی حسینی شاہرودی، بیانات حجت الاسلام محسن فقیہی، بیانات آیت اللہ جوادی آملی۔
Add new comment