خلاصہ: انسان کو خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی چیز اسے مغرور نہ کردے، مغرور کرنے والی چیزوں میں سے ایک مال و دولت کی کثرت ہے۔
انسان کو زندگی میں مال کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر انسان کے پاس مال زیادہ ہوجائے تو یہ خوشی کی بات نہیں ہے، کیونکہ جب مال کم تھا تو اس کا توکل اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر تھا، مگر جب مال بڑھ گیا تو آدمی مال کی کثرت کو دیکھ کر خوش ہونے لگا تو ہوسکتا ہے کہ وہ مال پر ہی بھروسہ کرنے لگ جائے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے اپنے آپ کو (نعوذباللہ) بے نیاز سمجھنے لگے۔
وہ مال کی فراوانی کو دیکھ کر یہ نہ سمجھ لے کہ اب کیونکہ مال بڑھ گیا ہے تو یہی مال اس کی زندگی کو خوشگوار بنادے گا، اس کے دل کے اطمینان اور تسکین کا باعث بنے گا اور اس کی سب مشکلات کو حل کردے گا! ایسا نہیں ہے، کیونکہ کتنے لوگ ہیں جن کے پاس مال کثرت سے موجود ہے، لیکن ان کو زندگی میں مٹھاس محسوس نہیں ہوتی، ان کا دل بے چین رہتا ہے اور ان کی مشکلات اور تکلیفیں، غریب لوگوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔
مال و دولت کی کثرت پر خوش ہونے کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے اور جب بے نیاز سمجھے گا تو طغیان اور سرکشی کرے گا۔ سورہ علق کی آیت ۶، ۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ . أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ"، "ہرگز نہیں! انسان (اس وقت) سرکشی کرنے لگتا ہے۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ (غنی) بےنیاز ہے"۔
جبکہ انسان لمحہ بہ لمحہ، مسلسل اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے اور اگر صرف ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو امداد نہ پہنچے تو انسان تباہ ہوجائے گا۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment