خلاصہ: آخرت کی ابدی زندگی کی خوش نصیبی تک پہنچنے کی دو شرطیں بیان کی جارہی ہیں۔
آدمی کیسے غلط راستے پر چلنے لگ جاتا ہے اور اپنی آخرت کھو بیٹھتا ہے اور ہمیشہ کی ہلاکت کا شکار ہوجاتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ یہ گمراہی، ذہنی اور اندرونی حالت سے شروع ہوتی ہے، پھر عمل اور کردار میں ظاہر ہوتی ہے، اس کے بعد نہ صرف اس کے اپنے کردار میں بلکہ دوسروں تک بھی پھیل جاتی ہے اور ان کو بھی خراب کردیتی ہے اور انہیں ابدی خوش نصیبی تک پہنچنے سے روک لیتی ہے۔
سورہ قصص میں فرعون اور فرعونیوں اور ہامان اور قارون کا قصہ بیان کرنے کے بعد آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ"، "یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں تکبر و سرکشی اور فساد برپا کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں کے ہی لئے ہے"۔
یہاں جو "الدَّارُ الْآخِرَةُ" کی شرط بیان کی ہے، اس کا راز یہ ہے کہ "عُلُو فی الارض یعنی زمین میں تکبر" کا ارادہ، ہلاکت کا باعث بنتا ہے، کیونکہ زمین میں ٹھہرنا مقصد نہیں ہے۔ یہ زمینی اور دنیاوی زندگی ایسا راستہ ہے جسے طے کرنا ہے اور اس محدود اور عارضی دورانیہ کو گزارنا ہے تا کہ نتیجہ تک پہنچا جاسکے، کیونکہ جو شخص سعادت اور خوش نصیبی کی تلاش میں ہے اسے زمینی زندگی پر نظریں نہیں جمانی چاہئیں، بلکہ اس کی توجہ آخرت کے گھر پر ہونی چاہیے۔
اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق کیا ہے تا کہ انسان ہمیشہ سعادت اور خوش نصیبی میں رہے۔ دنیا کے دن، ہفتے، مہینے اور حتی سالہا سال آنکھ جھپکنے میں گزر جاتے ہیں۔ لہذا توجہ آخرت کے گھر پر ہونی چاہیے جہاں ہمیشہ کی سعادت پائی جاتی ہے۔ اگر اس بات کا ادراک ہوجائے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ ہمیشہ کی خوش نصیبی تک پہنچنے کی شرط یہ ہے کہ ہمارا ارادہ "زمین میں تکبر کرنا" اور "فساد برپا کرنا" نہ ہو "وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ" اور (نیک) انجام تو تقوی والوں کے لئے ہے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی، عوامل ترقی و انحطاط انسان، جلسه چهارم۔
Add new comment