خلاصہ: انسان کو اللہ تعالیٰ نے خلق کیا ہے تو انسان کو چاہیے کہ اپنے خالق کی فرمانبرداری کرے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی مرضی نہ کرے۔
اس دنیا میں انسان کو اس لیے لایا گیا ہے کہ اسے آزمایا جائے۔ بہت سارے لوگ اس امتحان کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اسی لیے ہر کام میں اپنی مرضی کرتے ہیں، یہی اپنی مرضی کرنا اس امتحان میں ناکامی ہے، ایسا نہیں ہے کہ جو آدمی اب دنیا میں امتحان دینا چاہے وہ دے سکتا ہے اور جو نہ دینا چاہے اس کی مرضی! نہیں ہرگز ایسا نہیں، انسان چاہے یا نہ چاہے اس سے امتحان لیا جارہا ہے، اس امتحان کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ جو شخص اس امتحان کا انکار کرے وہ بھی بالکل امتحان میں ہے اور بالکل گمراہی کے راستے پر چل رہا ہے جو بالآخر اپنی ناکامی دیکھ لے گا، مگر اُس وقت امتحان کا وقت ختم ہوچکا ہوگا، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ فی الحال جو مرضی کرتے رہیں، وہیں دیکھا جائے گا! نہیں، بلکہ اس دنیا سے جب آنکھیں بند کرلیں تو امتحان کا وقت ہی ختم ہوجائے گا اور آخرت میں داخل ہوتے ہوئے اپنی کی ہوئی مرضیوں کا دردناک اور حسرت بھرا نتیجہ پانا ہوگا۔
دنیا کی زندگی میں لوگ چاہے جتنا بھی امتحان سے فرار یا فراموشی اختیار کرنا چاہیں، وہ خوش ہوں یا پریشان، مالدار ہوں یا فقیر، مرد ہوں یا عورت، ہر حال میں امتحان کی حالت میں ہیں اور اس امتحان سے نکل نہیں سکتے۔
دنیا میں انسان ایسے امتحان کے گھیرے میں ہے کہ نہ اس کی خوشی اسے امتحان سے آزاد کروا سکتی ہے، نہ اس کے مال کی کثرت اسے امتحان سے معاف کروا سکتی ہے اور نہ اس کا فقر اسے امتحان کی حالت سے نکال سکتا ہے اور نہ ہی ان کے علاوہ دوسرے حالات انسان کو امتحان سے رہائی دلوا سکتے ہیں، بلکہ خوشی کے موقع پر مثلاً اس کا امتحان ہوگا کہ کیا وہ خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے یا اللہ کو فراموش کرکے گناہوں کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے، مالداری کی حالت میں یہ امتحان ہوسکتا ہے کہ کیا وہ مالی واجبات جیسے خمس و زکات ادا کرتا ہے یا نہیں، فقر کے نازک حالات میں یہ امتحان ہوسکتا ہے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ پر امید اور بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کو رازق سمجھتا ہے یا ناامید ہوجاتا ہے۔
لہذا انسان کو اس بات پر بہت غور کرنا چاہیے کہ کسی بھی موقع پر اپنے آپ کو امتحان سے فارغ نہ سمجھ لے۔
سورہ ملک کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ"، "جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment