خلاصہ: ہمارے بعض کام عادت کی بنیاد پر ہیں اور بعض فطرت کی بنیاد پر۔ عبادت کا تعلق فطرت سے ہے۔ فطرت میں جو تقاضے خداوند متعال نے رکھے ہیں ان کو پورا کرنے کی ضروریات کو بھی پیدا کیا ہے، اگر انسان میں پیاس اور بھوک رکھی ہے تو پانی اور کھانا بھی اس کے لئے فراہم کیا ہے، اگر اس میں لامحدود کی چاہت رکھی ہے تو عبادت اور نماز کو اس لامحدود خدا کے قریب پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
ہمارے بعض کام عادت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور بعض فطرت کی بنیاد پر۔ جو عادت ہو وہ اہمیت کی حامل بھی ہوسکتی ہے جیسے ورزش کرنے کی عادت، اور ہوسکتا ہے بے اہمیت ہو جیسے سگریٹ پینا۔ لیکن اگر کوئی کام فطری ہوجائے جو فطرت خداوند متعال نے ہر انسان کے وجود میں رکھی ہے، اس کی بنیاد پر ہو تو ہمیشہ اہمیت کی حامل ہے۔
فطرت کو عادت پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ فطرت میں زمان و مکان، جنس و قومیت اور عمر کا کوئی کردار نہیں اور ہر انسان، انسان ہونے کے لحاظ سے اس کا حامل ہوتا ہے، جیسے اولاد سے محبت، جس کا تعلق کسی خاص نسل اور زمانہ سے نہیں ہے اور ہر انسان اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے۔ لیکن کپڑوں اور کھانے کی شکل و نوعیت جیسے مسائل، عادت کے لحاظ سے ہوتے ہیں اور مختلف زمانوں اور جگہوں میں، مختلف صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں کچھ چیزیں رائج ہیں جو دیگر جگہوں میں ان کا رواج نہیں ہے۔
عبادت نیز فطری امور میں سے ایک ہے، لہذا سب سے زیادہ قدیم، خوبصورت اور مضبوط، انسان کی بنائی ہوئی عمارتوں کا تعلق، عبادتگاہوں، مساجد، بتکدوں اور آتشکدوں سے ہے۔ البتہ عبادت کے طریقوں میں بہت سارے فرق دکھائی دیتے ہیں، معبود کے لحاظ سے بھی اور عبادت کی صورت کے لحاظ سے بھی ۔
عبادت کی انسان کے وجود میں فطری طور پر گہری جڑ پائی جاتی ہے اگرچہ خود انسان اس بات سے غافل رہے۔ خداوند حکیم نے جس فطری چیز کو انسان میں قرار دیا ہے اس کو پورا کرنے کے وسائل کو بھی فراہم کیا ہے۔ اگر انسان کے اندر پیاس اٹھتی ہے تو پانی پیدا کیا ہے اور اگر بھوک لگتی ہے تو اس کے لئے کھانا رکھا ہے، اگر جنسی خواہش اس میں رکھی ہے تو اس کے لئے بیوی خلق کی ہے۔ انسان کے گہرے جذبات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان، لامحدود کا خواہشمند، کمال کو چاہنے والا اور بقا کو پسند کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے رابطہ اور اس کی عبادت کرنا، اِن فطری تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ نماز اور عبادت ہے جو کمالات کے سرچشمہ سے انسان کا تعلق، حقیقی محبوب سے لگاؤ اور لامحدود طاقت کی پناہ لینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مأخذ:
تفسیر نماز، حجت الاسلام قرائتی
Add new comment